سعودی عرب کی قائدانہ حیثیت مشکوک

Saudi Arabia

Saudi Arabia

مسلم ممالک میں سعودی عرب کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں وہ مقدس مقام ہے جسکی زیارت کے لئے دنیا بھر سے لاکھوں افراد یہاں آتے ہیں اور روحانی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ اس سرزمین کے ساتھ مسلمانوں کے جذباتی لگائو ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام میں خاص طور پر عالم عرب میں اس کو قائدانہ حیثیت حاصل رہی ہے۔ مگر گزشتہ چند برسوں میںداخلی و خارجی سطح پر بدلتی پالیسی نے سعودی عرب کے قائدانہ حیثیت کو مشکوک بنا دیا ہے۔

ابھی حال ہی میں امریکی تھنک ٹینک پیو(Pew) ریسرچ سینٹر سروے میں جو انکشاف ہوا ہے وہ حیران کن ہے۔ انتالیس ممالک میں 2 مئی 2012 سے یکم مارچ 2013 تک پیو ریسرچ سینٹر کی طرف سے ہوئے سروے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف پانچ برس کے اندر سعودی عرب کے تئیں عوامی مثبت سوچ کا گراف تیزی سے نیچے آیا ہے۔ چنانچہ 2007 کی بہ نسبت 2013 میں مصر میں سعودی حکومت کے تئیں مثبت سوچ میں 13 فیصد، لبنان میں 31 فیصد، فلسطین میں 13 فیصد، ترکی میں 14 فیصد ،اردن میں 2 فیصد، انڈونیشیا میں 4 فیصد کمی ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ دیگر مسلم ملکوں میں بھی سعودی عرب کے تئیں منفی سوچ میں اضافہ ہورہا ہے۔ جہاں تک یورپی ممالک کی بات ہے تو وہاں بھی سعودی عرب کے تئیں جو عوامی سوچ تھی اس میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے۔اب یورپ میں سعودی حکومت کی ایک ناکام اور غیر ملکی معاملوں میں دخل اندازی کرنے والے ملک کی حیثیت سے شناخت بنتی جارہی ہے اور اسی نئی شناخت کو بنیاد بنا کر اقوام متحدہ کے ڈپٹی سکریٹری جنرل جفری فیلٹ مین نے تو سعودی حکومت کو بے ضمیر تک کہہ ڈالا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی ملک اپنے قومی معاملوں میں سعودی مداخلت کو پسند نہیں کرتا ہے۔دراصل سعودی حکومت کسی ملک میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتی ہے تو اس کا مقصد ہوتا ہے جمہوریت کو دباکر شاہی حکومت کا نظام قائم کرنا۔ چنانچہ ماضی میں جہاں جہاں جمہوریت کی بحالی کے لئے عوامی کوشش ہوئی، وہاں سعودی عرب نے مالی یا فوجی امداد دے کر اس کوشش کو دبانے کی سازش کی۔ لہٰذا بحرین میں عوامی تحریک کو کچلنے کے لئے فوج بھیج کر آل خلیفہ کی مدد، یمن میں صالح عبد اللہ کو لانے کوشش، مصر میں فوجی حکومت کی تائید، تیونس کو شام کے خلاف فوجی کارروائی کی ترغیب اور لیبیا میں عوامی انقلابات کو دبانے کی کوششیں۔

اسی سلسلے کی کڑی مانی جارہی ہیں اور یہ سمجھا جارہا ہے کہ سعودی حکومت ان ملکوں کے اندرونی معاملوں میں دخل اندازی کرکے وہ آمریت بحال کرنا چاہتی ہے۔ابھی حال ہی میں لبنانی صدر نے سعودی عرب پر اسی طرح کا الزام لگایا ہے کہ سعودی عرب کی مداخلت کی وجہ سے ہی لبنان میں تشویشناک صورت حال پیدا ہورہی ہے۔س عودی عرب کے وزیر خارجہ سعود فیصل نے اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ سعودی عرب نے مصر سمیت خطے کے دیگر ملکوں میں حالیہ دوسال کے دوران آنے والی تبدیلیوں میں کھربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔

Dollars

Dollars

غیر ملکوں میں سعودی مداخلت کی وجہ سے ہی اس پر الزام لگتا رہا ہے کہ وہ تیل کے ڈالروں کے ذریعے علاقے میں قائم آمریتوں کا تحفظ اور عرب ملکوں میں عوامی انقلاب کی روک تھام کی کوشش کر رہا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ عراق ،یمن، تیونس میں مداخلت کے بعد شام کے معاملے میں ترکی کے اندر شروع ہونے والی مخالفت اور انقرہ کا کردار کمزور ہونے، قطر میں اقتدار کی تبدیلی، نیز دہشت گردوں کے مقابلے میں حکومت شام کا پلڑا بھاری ہونے کے بعد، اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت اپنے انٹیلی جینس چیف بندر بن سلطان کی قیادت میں جن کے امریکی انٹیلی جینس حکام کے ساتھ قریبی مراسم ہیں۔

خطے کی تیدیلیوں کو مغربی اور اسرائیلی حمایت سے اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔جہاں تک سعودی عرب میں شہریوں کو تحفظ دینے کی بات ہے تو اس سلسلے میں مسلم ممالک کے عوام میں قدرے بہتر رائے ہے اور ان کا کہنا ہے کہ سعودی شہریوں کو دیگر مسلم ملکوں کی بہ نسبت زیادہ تحفظ حاصل ہے مگر یورپی ممالک کے نظریات مختلف ہیں۔تقریباً 65 فیصد پاکستانی، 52 فیصد انڈونیشین،55 فیصد نائجرین کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔

جبکہ یورپی ممالک میں اسپین 86 فیصد، گریس 84 ، فرانس 81 فیصد لوگوں کا ماننا ہے کہ وہاں شہریوں کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔اسی طرح کینیڈا میں 74 فیصد ، امریکہ میں 72 فیصد اور اسرائیل میں71 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہے۔ سعودی عرب کا اپنے عوام کے اوپر اثر و رسوخ رکھنے اور انہیں شہری آزادی دینے کے تعلق سے لبنان کے 43 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اپنے عوام کے تئیں جو رویہ اختیار کیے ہوئی ہے ،وہ مناسب ہے جبکہ 48 فیصد کا کہنا ہے کہ یہ رویہ غیر مناسب اور آمرانہ ہے۔

جب یہ سوال لبنان کے کرسچن طبقے سے کیا گیا تو ان میں سے 40 فیصد نے مناسب اور 47 فیصد نے غیر مناسب کہا۔ 39 ملکوں کے اس سروے میں اجمالی طور پر 18 فیصد لوگوں نے اعتراف کیا ہے کہ سعودی حکومت اپنے عوام کو حق شہریت دے رہی ہے جبکہ 70 فیصد نے یہ جواب دیا کہ سعودی عرب امریکہ کا بڑا دوست ملک ہے مگر امریکہ میں عام آدمی کو جو آزادی حاصل ہے وہ سعودی عر ب میں نہیں ہے۔عام طور پر سعودی عرب کے بارے میں یہ تصور ہے کہ یہاں مذہبی قوانین نافذ ہیں اور مذہبی امور کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے۔

مگر پیو(PEW) کے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی عرب میں مذہبی معاملوں کو تحفظ دینے میں بھی تیزی سے زوال آرہا ہے۔چنانچہ جب مسلم ملکوں میں اس تعلق سے سروے کیا گیا تو پتہ چلا کہ چند مسلم ممالک جیسے پاکستان ،مصر اور فلسطین کو چھوڑ کر زیادہ تر ممالک یہ سوچتے ہیں کہ وہاں مذہبی آزادی نہیں ہے۔گزشتہ چند برسوںمیں حکومت نے ائمہ پر جمعہ خطبہ میں جس طرح سے پابندی لگائی ہے۔ان کی وجہ سے پوری دنیا میں حکومت کے خلاف غصہ پیدا ہوا اور یہ محسوس کیا گیا کہ وہاں مذہبی معاملوں میں ائمہ و عوام پر جبراً پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔

Sheikh Muhammad Al Arifi

Sheikh Muhammad Al Arifi

چند ماہ پہلے 18 ائمہ کو گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں خطبہ دینے سے روک دیا گیا تھا۔ کیونکہ انہوں نے خطبہ کے دوران جمہوریت کی افادیت پر بات کی تھی۔اسی طرح رمضان المبارک کی 10 تاریخ کو شیخ محمد العریفی کی گرفتاری اور محسن العواجی کو مصر کی اسلامی حکومت کی تائید کرنے کے جرم میں گرفتار کرکے جیل میں ڈالنا اور حکومت کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا جبری معاہدہ لے کر انہیں چھوڑنا اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ مذہبی معاملے میں بھی سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔

سعودی حکومت عوامی جذبوںسے واقف ہے اورجانتی ہے کہ اس کا گراف تیزی سے نیچے آرہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سعودی حکومت عالم اسلام میں اپنی گرتی ساکھ کو واپس لانے کے لئے راستے تلاش کررہی ہے اور مبصرین کی طرف سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ سلامتی کونسل میں غیر مستقل رکنیت سے انکار اسی تلاش کا ایک حصہ ہے۔دراصل شام میں بشارالاسد کو بر طرف کرنے اور ایران میں جوہری پلانٹ کو بند کرانے کے لئے سعودی عرب نے امریکہ پر دبائو بنایا تھا۔

سعودی حکومت کو پورا اعتماد تھا کہ امریکہ اپنی طاقت کا استعمال کرکے شام کی اسد حکومت کا خاتمہ کردے گا۔ اس نے جنگ پر آنے والے تمام اخراجات برداشت کرنے کا بھی عندیہ دیا تھا۔مگر اتفاق سے اقوام متحدہ میں جب بھی یہ معاملہ پیش کیا گیا تو روس اور چین نے ویٹو کردیا،اوپر سے بشار اسد نے اپنے کیمیائی ہتھیار کو تلف کرنے پر رضامندی بھی دے دی ،جس کا انجام یہ ہوا کہ شام پر حملے کا جواز پیدا نہیں کیا جاسکا، جس کی وجہ سے سعودی عرب اپنے دیرینہ حلیف امریکہ سے ناراض ہوگیا۔

یہ بات ہوگئی ایک تو کریلا اوپر سے نیم چڑھا جیسا کہ ایک تو سعودی عرب امریکہ سے پہلے سے ہی اس بات پر ناراض تھا کہ اس نے ایک ڈکٹیٹر حسنی مبارک کو معزول کرنے میں اخوانی انقلاب کا ساتھ دیا تھا، اوپر سے مصر میں جمہوری حکومت کا تختہ پلٹنے والی فوجی حکومت کو دی جانے والی امداد بھی بند کردی تھی ،جس کی بھرپائی کا وعدہ سعودی عرب نے خود کیا ہے اور اب جب شام میں بشار اسد کو بر طرف کرنے اور ایران میں جوہری پلانٹ پرپابندی لگانے میں امریکہ نہ صرف ناکام ہوا بلکہ ایرانی صدر حسن روحانی سے امریکی صدر اوباما کی قربتیں بڑھنے کے اشارے بھی ملنے لگے۔

تو اس کا غصہ مزید بھڑک گیا اور وہ اپنی ناراضگی کا اظہار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں رکنیت کی پیشکش کو مسترد کرکے کر رہا ہے۔حالانکہ وزیر خارجہ سعود فیصل نے رکنیت قبول نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ سلامتی کونسل خطے میں امن بحال کرنے میں ناکام رہا ہے، اس لئے سعودی عرب رکنیت سے انکار کر رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب نے اپنے اس انکار سے ایک تیر سے دو شکار کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

Saudi Arabia

Saudi Arabia

ایک طرف خلیجی ممالک کے حکمراں جن کی آمریت کو برقرار رکھنے میں سعودی پیش پیش رہا ہے،ان کی طرف سے سعودی عرب موقف کو تائید ملنا یقینی تھا اور اس طرح سعودی عرب دنیا کو یہ بتا نے کی پوزیشن میں آجائے گا کہ خلیجی ملکوں میں اس کی قائدانہ حیثیت اب بھی برقرار ہے اور دوسری طرف عوام میں یہ پیغام جائے گا کہ سعودی عرب کو امریکی اشاروں کا غلام سمجھا جاتا ہے ،یہ غلط ہے۔ کیونکہ ضرورت پڑنے پر سعودی عرب اپنے مفاد کی خاطر سلامتی کونسل جیسی امریکی پیشکش کو بھی ٹھکرا سکتا ہے۔

اس طرح عوام میں اس کے تئیں ایک مثبت پیغام جائے گا اور اس کا گرتا گراف سنبھل سکتا ہے۔جہاں تک خلیجی ممالک کی طرف سے سعودی موقف کی تائید کی بات ہے تو اس سلسلے میں سعودی عرب کسی حد تک کامیاب ہوسکتا ہے۔ اسے قطر،مصر اور کچھ دیگر عرب ملکوں کی طرف سے تائید مل بھی چکی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوام میں اس کا جو گراف تیزی سے گر رہا ہے۔

اس کو روکنے میں سعودی عرب کامیاب ہوسکے گا؟ شاید نہیں۔ کیونکہ خلیج میں بیشتر ایسے ممالک ہیں جن کی حکومتیں تو پہلے سے ہی سعودی عرب کی حمایتی رہی ہیں اور ان کی طرف سے سعودی موقف کی تائید کوئی غیر متوقع نہیں ہے مگر کیا ان ملکوں میں عوام کی سوچ کو بھی بدلا جاسکتا ہے ؟کیا سعودی عرب اپنے نئے منصوبوں سے عوامی منفی سوچ کو بدلنے میں کامیاب ہوسکے گا؟اس کا جواب صرف آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔

تحریر: میاں محمد یوسف
0321-4461710