ختمِ نبوت کی شقیں قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی منظور

National Assembly

National Assembly

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان میں قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی انتخابات ایکٹ 2017ء میں ترمیم کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا ہے۔

بِل کے تحت ختمِ نبوت پر ایمان نہ رکھنے والے شخص کے غیر مسلم ہونے کی حیثیت برقرار رہے گی۔ اس ترمیمی بل کے تحت آئین میں قادیانیوں کی حیثیت بھی تبدیل نہیں ہوگی۔

قومی اسمبلی نے جمعرات کی شام انتخابات ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری دی تھی جسے جمعے کو سینیٹ نے بھی اتفاق رائے سے منظور کرلیا۔

گزشتہ ماہ پارلیمان سے منظور ہونے والے انتخابی اصلاحاتی بل 2017ء کے سبب جنرل الیکشن آرڈر 2002ء میں احمدی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی شقیں ‘سیون بی’ اور ‘سیون سی’ خارج ہوگئیں تھیں جنہیں اس ترمیمی بل کے ذریعے دوبارہ بحال کردیا گیا ہے۔

مذکورہ شقوں کے مطابق، انتخابی عمل میں حصہ لینے پر بھی احمدی عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد کی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسا کہ آئین پاکستان میں واضح کی گئی ہے۔

نئے بِل میں کہا گیا ہے کہ ووٹرلسٹ میں درج کسی شخص پر منکرِ ختمِ نبوت ہونے کا اعتراض اٹھے تو اسے 15 دن میں طلب کیا جائے گا۔

جس شخص پر منکرِ ختمِ نبوت ہونے کا شبہ ہو وہ شخص اقرار نامے پر دستخط کرے گا کہ وہ ختمِ نبوت پرایمان رکھتا ہے۔ اگر وہ شخص اقرار نامے پر دستخط سے انکار کرے گا تو اسے غیر مسلم تصور کیا جائے گا اور اس کا نام مسلمانوں کی ووٹر لسٹ سے ہٹا کر غیر مسلم کے خانے میں لکھا جائے گا۔

سینیٹ میں بِل پیش کرتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ نئے بل میں 7 بی اور 7 سی شامل کردیے گئے ہیں۔

الیکشن ایکٹ کی شق 7 سی کے تحت احمدی غیر مسلم برقرار رہیں گے اور اُن کی علیحدہ ووٹر لسٹ ہو گی۔

سیون سی کے تحت اگر کوئی شخص مسلم ووٹر کے طور پر رجسٹریشن کرائے اور اس پر منکرِ ختمِ نبوت ہونے کا شبہ ہو تو اس کے خلاف درخواست دی جا سکتی ہے جس پر 15 دن کے اندر کارروائی کی جائے گی۔ اگر مذکورہ شخص ختم نبوت کا اقرار نہیں کرتا تو اسے غیر مسلم قرار دیا جائے گا۔

وزیرِ قانون نے مزید کہا کہ پہلے بھی اس بِل میں احمدی، قادیانی اور لاہوری گروپ کو غیرمسلم قرار دے چکے ہیں۔

انہوں نے ایوان کو بتایا کہ قومی اسمبلی میں جمعرات کو اس موضوع پر تفصیل سے بات ہوئی تھی لیکن رپورٹنگ ٹھیک نہیں ہوئی۔

زاہد حامد نے کہا کہ بِل کے حوالے سے ان پر بدنیتی کا الزام لگا تھا۔ ان کے بقول وہ مسلمان ہیں اور اس معاملے میں کچھ غلط کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ عبدالغفور حیدری نے سینیٹ اجلاس میں کہا کہ ختمِ نبوت کے معاملے کو 1973ء کے آئین کے مطابق برقرار رکھنےپر پوری قوم کو مبارک باد دیتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اس بل کے پاس ہونے سے عقیدۂ ختمِ نبوت ایک بار پھر محفوظ ہوگیا ہے جس کا کریڈٹ پوری پارلیمنٹ کو جاتا ہے۔

عبدالغفور حیدری نے کہا کہ جو کوتاہی ہوئی اسے وزیرِ قانون نے ٹھیک کرکے قومی اسمبلی و سینیٹ سے پاس کرایا اور ایک وعدہ جو رہ گیا تھا وہ وعدہ بھی وزیرِ قانون نے آج پورا کردیا ہے۔

سینیٹ سے منظوری کے بعد اب اس بِل کو دستخط کے لیے صدر مملکت کو بھجوایا جائے گا جن کے دستخط کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔

واضح رہے کہ اسلام آباد میں احتجاجی ریلی میں شریک رہنماؤں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ حکومت ختمِ نبوت سے متعلق حلف نامے میں کی گئی مبینہ تبدیلی کے ذمہ دار وزیرِ قانون زاہد حامد کو منصب سے ہٹا دے۔

تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں وزیرِ قانون کا کوئی کردار نہیں اور حلف نامے میں تبدیلی ایک “کلیریکل” غلطی تھی جس کی نشاندہی کے فوراً بعد ہی تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر ایک ترمیم کر کے پرانے حلف نامے کو بحال کر دیا تھا۔