سنگاپور سے ٹارزن کی واپسی

Safari Park

Safari Park

تحریر: احمد سعید
”سفاری پارک میں جانور کھلے پھر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی بڑی بات نہیں، پاکستان میں سڑکوں پر ہی کھلے پھررہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ شرف سفاری پارک کو ہی حاصل ہوتا ہے کہ آپ جنگل کے اندر پھر رہے ہوتے ہیں۔ آپ چڑیا گھر میں نہیں، اصلی جنگل میں داخل ہوتے ہیں۔ سفاری پارک بس کی سواری پہ گیا پر سفاری سوٹ نہ پہنا لیکن کچھ نہ کچھ پہنا ہوا تھا کیونکہ میں جنگل میں جینگالالا ہو کرتے نہیں جارہا تھا۔ لیکن سنگاپور سفاری پارک کے شروع ہوتے ہی بے شمار جینگا لالاہو دیکھے۔ بڑے بڑے پتوں میں ملبوس ڈھول کی تاپ پر رقص پیش کررہے تھے۔ صرف کرہی نہیں رہے تھے۔ کررہی بھی تھیں، وہ بھی پتوں میں ہی ملبوس تھیں۔ جنگل کا اصلی منظر پیش کیا گیا۔ سفاری پارک داخل ہونے سے پہلے بے شمار دوکانیں تھیں،جنگل میں ہر طرف اندھیرہ ہی اندھیرہ تھا۔ پتے والے یعنی جنگلی انسانوں نے ہاتھوں میں آگ کی شمعیں روشن کی ہوئیں تھیں، جس سے دکھائی دے رہا تھا۔ (پتوں کے علاوہ بھی کئی کچھ) ۔ جنگل میں سیر کے لئے اندر چھوٹی چھوٹی ٹرینیں چلائی ہوئی ہیں، لیکن آپ پیدل بھی دیکھ سکتے ہیں۔

پیدل کا رِسک میں نے نہ لیا بھئی اِن شیروں سے میری دوستی نہ تھی اور لگڑ بگڑوں سے تو میں دوستی کرتا بھی نہیں، اس لئے ٹرین کے سفر کو ہی مناسب جانا۔ ٹرین پہ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ ٹرین کے ساتھ ساتھ ہرن پھرتی ہوئی دکھائی دیں۔ میں سمجھ گیا کہ جنگل شروع ہوچکا ہے۔ اب نہ واپس جانے کا راستہ اور آگے تو جاہی رہے تھے خیر۔ ٹرین بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھی ۔ اور یہ تو ہرنیں تھیں،میں نے سوچا اگرآگے شیر اتنے ہی قریب پھرتے ہوئے تو پھر… تو پھر کیا دوڑیں لگیں گی۔ یا ہم ہوں گے یا پھر شیر یعنی
ہم تم ہوں گے دنگل ہوگا
رقص میں سارا جنگل ہوگا

لیکن یقین جانیں اِس شعر کی طرح کچھ نہ ہوگا یہ شعر کسی شیر کی طرف سے آیا ہے۔ میری طرف سے کوئی دنگل نہیں ہوگا ۔بس ایک دو تین اور ایسی دوڑ کہ اولمپکس والوں نے بھی کبھی نہ دیکھی ہوگی۔ ٹرین جب شیروں کے پاس آئی تو ٹرین والی نے کہا کہ یہاں تصویریں بنانا منع ہے۔ میں نے خود سے کہا کہ ہاتھ سے بنانہیں سکتے۔ یعنی فائن آرٹس کے جو ہر نہیں دکھا سکتے۔ کھینچ تو سکتے ہیں اور کھینچ دی۔ بس تصویر کا کھینچناتھا۔ شیر دھارا ، اور میں بن گیا وچارہ۔ اب خامشی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا کہ یہ تصویر کس نے کھینچی ہے؟ خیر شیر تھوڑے دور تھے۔ میرا دِل کیا کہ ٹرین چلانے والی کے کان میں جا کر کہوں کہ اِس بار تصویر شیروں نے ہی کھینچ دی ہے۔ انھیں بھی کوئی ہدایات جاری کریں۔ شیر ہیں تو اِس کامطلب جو مرضی کرتے پھریں۔ اب اُن (شیروں) کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں اور بالکل شیروں جیسی آوازیں، بھئی شیروں جیسی ہی آنی تھیں وہ کونسا گیدر تھے۔ لیکن ہوبھی سکتے تھے اگر شادی شدہ نکلے تو۔ اب گیدڑوں کی بھی آرہی تھیں لیکن پہلے شیروں کی آئیں پھر گیدڑوں کی۔

Lion

Lion

لگتا ہے گیدڑ ادب و آداب کا خاصہ خیال رکھتے ہیں یاڈر کیوجہ سے وہ یہ حرکت فرما رہے تھے۔ خیر ہمارے اور شیروں کے درمیان ایک چھوٹی سی نہر حائل تھی۔ یہ محبت کرنے والوں کے درمیان کچھ نہ کچھ حائل ہی رہتا ہے ۔ سوہنی کو تو کچہ گھڑا کرائے پہ لینا پڑگیا۔ اب شیر کیا کرتے میرے لئے ۔میں نے تو اُن کیلئے ٹرین لے لی جو اب انہیں کافی پیچھے چھوڑ چکی تھی ۔ اب ایک ایسی جگہ ٹرین جا کر رُکی جہاں سے آگے پیدل ہی جایا جاسکتا تھا۔ ویسے وہاں گھوڑے بھی داخل ہوسکتے تھے لیکن سفاری پارک والوں نے ہمیں مہیا نہ کئے۔ اب اتنا وقت میرے پاس نہ تھا کہ پہلے جنگل میں گھوڑوں کی تلاش میں نکل پڑتا۔ میں پیدل ہی چل پڑا۔ اندھیرے میں چھوٹے چھوٹے سائن بورڈ لگے ہوئے تھے جانوروں کے، یعنی اُن پہ جانوروں کے نام لکھے تھے اور ساتھ اشارہ تھا کہ اِس قسم کے جانور اِس طرف متواقع ہیں۔ میں نے ایک سائن بورڈ پہ پڑھا بیٹس (چمگا دیں) پہلے تو گھبرایا پھر سو چابھئی ایسے کھلی تھوڑی چھوڑی ہوں گی اور اگر کھلی بھی ہوں گی تو کیا ہوا بچپن میں رات کو جس گراؤنڈ میں کھیلتے تھے وہاں کیا کم ہوتی تھیں؟ لیکن پھر سوچا کہ ہمیں ویسے اُن سے ڈر بہت آتا تھا۔

دماغ نے کہا رہنے ہی دیتے ہیں یہ گراؤنڈ نہیں جنگل ہے۔ دِل نے کہا اِسی لئے تو دیکھنی ہیں کہ یہ جنگل ہے اور انگلش فلم Bats بھی ذہن میں آئی اور میں چل پڑا بیٹس کی طرف آخر میں نے بھی بڑے ”بیٹ” گھمائے ہوئے ھیکرکٹ میں۔ جب اِس علاقہ غیر میں داخل ہوا تو کچھ نہیں تھا۔ میں نے کہا لو اتنی سی بات ۔ کہیں درختوں پہ بیٹھی ہوں گی۔ درختوں کے اوپر دیکھنا شروع کردیا۔ ایک چھوٹی سی چمگادڑ آئی۔ میں نے کہا یہ تو ہماری گراؤنڈ سے بھی ہلکہ کام ہے۔ تھوڑا اور آگے بڑھا اور بڑھتا گیا اب دو چار چمگادڑیں اِدھر اُدھر مجھے ڈرا کے جائیں۔ میں تھوڑا ڈرتا پھر اپنے قدموں پہ کھڑا ہوجاتا ۔ اِس کے چند لمحوں بعد چمگادڑوں کی ایک ایسی فوج آئی کہ میں نے آنکھیں بند کرکے سرپٹ دوڑ لگا دی۔ حو اس ایسے اُڑے دوڑ پیچھے کو لگانی تھی آگے کو لگا بیٹھا۔ اب پیچھے دیکھا تو بڑی بڑی چمگادڑیں آگے اس سے بھی بڑی۔ بہت غصہ آیا سفاری پارک پہ کہ اتنا اصلی جنگل دکھانے کی کیا ضرورت ؟ میری تو نکلوا دیں چیخیں۔ بہت مشکل سے اُس علاقہ غیر سے بے یا رو مدد گار میں جیسے نکلا میں ہی جانتا ہوں۔

” بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے” تھوڑی دیر بعد جب ہوش آیا تو ایک سائن بورڈ پہ گلہڑ یوں کا لکھا ہوا تھا۔ دِل نے کہا یہ بھی بڑا بدتمیز جانور ہے۔ پر دِل نے یہ بھی کہا کہ (آیا ایتھے اَم لین واں) یعنی یہ چیزیں ہی دیکھنے آئے ہو اور کیا یہاں آموں (Mangoes) کی دعوت تھی ؟ سو ہولئے اُس طرف۔ ایک دو تو ہمارے ملک جیسی گلہریاں تھیں،انہیں کافی چھیڑ ا۔ وہ آگے آگے بھاگتی جائیں۔ اِسی دوران چند لوگ ایک درخت کے پاس خا موشی سے کھڑے درخت کو تک رہے تھے، میں بھی فوراً وہاں گیا۔ جیسے ہمارے ملک میں ایک دو شخص آسمان کی طرف دیکھنا شروع کردیں تو قریب کے لوگ ہی اوپر دیکھنا نہیں شروع کرتے باقاعدہ ٹریفک بھی رُک جاتی ہے اوپر دیکھنے کیلئے۔ اور اِس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اصل بات تو یہ ہے کہ جب انہیں معلوم بھی پر جاتا ہے کہ آسمان کی طرف کوئی بات نہیں تب بھی وہ دیکھی جاتے ہیں۔ خیر یہ ٹھیک دیکھ رہے تھے سفاری پارک میں ایک بڑا سا گلہری نما جانور درخت پہ چپکا ہوا تھا۔ پہلے تو مجھے دیکھ کر ڈرلگا۔ لیکن اتنے سارے لوگ کھڑ ے تھے اِس لئے زیادہ نہ لگا۔ سب اُسے تھوڑا تھوڑا چھیڑ رہے تھے۔ میں وہاں ٹارزن بنا اور اُسے زیادہ چھیڑ بیٹھا۔ پھر اُس نے جو میری طرف چھلانگ ماری کہ میرا تو رونا ہی نکل گیا۔

Animals

Animals

چلو رونا ہی نکلا کہیں کچھ اور نہیں نکل گیا۔ وہ جو اکثر بچوں کا نکل جاتا ہے۔ درحقیقت اِس نے چھلانگ میری طرف نہیں ماری تھی میرے پیچھے درخت تھا اُس پہ ماری تھی، پر وہ بتا کر تو مارتا۔ایک جنگل اُس کے اوپر ایسی حرکتیں جانوروں کو زیب تو نہیں دیتیں۔ پھر اِس قسم کے کسی جانور کو میں نے دیکھنے کی کوشس نہ کی ۔بس پھر بکری، ہرن، چوہا، بلی وہ بھی دور سے ہی میں نے سوچا تھا کہ واپسی پہ سب کو بتائیں گے کہ جنگل سے ٹارزن کی واپسی کیسے ہوئی؟ پر میرے ساتھ جو ہوئی اب میں خود کو ٹارزن کہتا ہی نہ تھا کہ کہیں کسی بکری نے بھی سُن لیا تو وہ جانے میرے ساتھ کیا سلوک کرے۔ چنانچہ ٹارزن کی واپسی تو نہ ہوئی البتہ ٹرین کی واپسی ہوئی اور واپسی پہ ایک جگہ ٹرین کے بالکل ساتھ چھوٹے چھوٹے ہا تھی کے بچے میں نے اُتر کر اُن کو چھونا چاہا، پھر میں نہ اُترا اور نہ انھیں ہاتھ لگایا۔ ماضی سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ وہ تو تھیں بھی بیچاری چمگادڑیں اور گلہری اور یہاں اگر اِن ہا تھیوں کے آباؤ اجداد آگئے تو اُن کے آگے دوڑنہ بھی بے سود ہوگا۔

اُن کی تو سونڈ بھی کوئی پچاس فٹ کی ہوتیہے پر جہاں اتنے خطرے مول لیے تھے وہاں ایک اور سہی ۔آگئے اِن کے والدین تو دیکھ لیں گے وہ خود ہی ہمیں۔ ٹرین نے ہمیں جہاں سے جنگل کی سیر شروع کروائی واپسی دوسرے راستے سے کروا رہی تھی، کیونکہ اگر اُسی رستے سے واپس آتی تو سارے جانور کہیں ہمیں الوداع کہنے کیلئے ہی نہ کھڑے ہوتے۔ ٹرین کا یہ اندازِ فکر مجھے بہت بھایا اور میں اللہ اللہ کرکے جنگل سے واپس آیا۔ پر ابھی کچھ جنگل باقی تھا جہاں بڑے بڑے بھینس بڑے بڑے سینگوں سمیت ، یہ سپین کے ملک میں جو کھیلوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں ان سے بھی کئی گنا بڑے سینگوں والے۔ وہاں میں نے یقین کریں کوئی بہادری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش نہ کی۔ نہ ہی میرے دِل نے مجھے کچھ کہا نہ ہی کوئی ترکیب ذہن میں آئی۔ بس ہما تن گوش بالکل خرگوش کی مانند انھیں آنکھیں تیز تیز چھپک کر دیکھتا رہا کہ زیادہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اگر دیکھا تو یہ آدم خور بھینسے کہیں برانہ منا جائیں کہ میں انہیں آنکھیں دکھا رہا ہوں۔

Safari Park  Animals

Safari Park Animals

اب میں بھلا انہیں آنکھیں دکھا سکتا تھا؟ میری کیا مجال؟ اِس قسم کے جانور تو دیکھے تھے اِس قسم کے سینگ نہیں۔ عینک والے جن میں زکوٹا جن کے تو بہت چھوٹے سینگ تھے اور ویسے بھی زکوٹا جن اِن کے سامنے کیا۔ اس لئے میں تھوڑی سی نظریں جھکائے دبکے سے بیٹھا رہا اور اِ س کوشش میں تھا کہ کسی نہ کسی طرح ٹرین والی سے عرض کروں کہ بھگا لے ٹرین بھگا لے ۔ کس چیز کا بدلہ لے رہی ہے ۔ایک تو جنگل میں داخل ہونے کے پیسے لئے اوپر سے ہمیں انٹرٹینمنٹ دینے کی بجائے اچھا خاصہ ڈرایا گیا اور اب یہ طوفانی بھینسے ۔ اتنی دیر میں ”سنگاپور نائٹ سفاری پارک ”ختم ہوا اور میرا حوصلہ بھی۔ جنگلی نما انسان ابھی بھی جینگا لالاکررہے تھے ،میں نے بھی تھوڑا سا کیا کیونکہ اب ٹارون کی واپسی ہوچکی تھی۔

تحریر: احمد سعید