دکھاوا

Society

Society

تحریر : اظہر اقبال مغل، لاہور
پاکستان میں کچھ باتیں ایسی ہیں جن کا کوئی مقصد نہ ہوتے ہوئے بھی وہ عام طور پر نظر آتی ہیں یہ باتیں ہے تو بہت معمولی معمولی سی ہیں لیکن قابل فکر اور قابل غور باتیں ہیں جن کے نہ کرنے سے تو شائد انسانی زندگی پر کوئی خاص اثر نہ پڑے لیکن ان پر عمل ہونے سے انسان بہت ساری اخلاقی امراض میں مبتٰلا ہو جاتا ہے اور عام طور پر معاشرہ میں بگاڑ کی وجہ بنتا ہے انسان کی ان باتوں کی وجہ سے دوسرے انسان بہت متاثر ہوتے ہیں ان باتوں کا انسان کی زندگی میں ہونا اتنا ضروری نہیں جتنا کہ ان کا نہ ہونا ضروری ہے۔

آج کل اگر بغور جائزہ لیا جائے تو بہت سارے لوگ اس مرض میں مبتٰلا ہوتے جا رہے ہیں جبکہ انسان تو پہلے ہی بہت ساری اخلاقی امراض کا شکار دکھائی دیتا ہے جن میں جھوٹ۔خوشامد۔غرور تکبر۔بغض کینہ۔غیبت۔حسد۔منافقت اور دیگر اخلاقی بیماریاں شامل ہیں لیکن آج کل دِکھاوا بھی کسی بیماری سے کم نہیں کیونکہ یہ تمام اخلاقی کی جڑ ہے آج کل یہ مرض اتنی عام ہوتی جارہی ہے کہ اس سے معاشرتی بگاڑ شدت اختیار کرتا جارہا ہے آج کل بیشتر لوگ اس بیماری کا شکار ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دِکھاوا وقت کی ضرورت بن چکا ہے تو غلط نہیں ہو گا آج کل دکھاوا اتنا عام ہوچکا ہے کہ انسان کے ہر قول وفعل میں دکھاوا نطر آتا ہے حالانکہ اگر اخلاقی نظریہ سے سے دیکھا جائے تو یہ ایک غیر اخلاقی حرکت ہے۔

آج بہت سے کام ہیں جن میں اگر دکھاوا کا تڑکا نہ لگایا جائے تو وہ کام پائہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا آج شادی بیاہ مشکل کیوں ہو گئے ہیں کہ اس میں دکھاوا کا عنصر اس قدر بڑھ چکا ہے کہ آج ہم سب دنیا کو دکھانے کے لیئے کرتے ہیں آج کل ہم صرف اپنی جھوٹی شان و شوکت اور انا کی خاطر اپنی حیثیت سے بڑھ کر شادیوں پر خرچ کر ڈالتے ہیں اور اپنی عزت بچانے کی خاطر ادھار لے لیتے ہیں اور سالوں قرضہ اتارنے میں لگا دیتے ہیں یہی اگر ہم اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کریں تو قرضہ جیسی اذیت سے بچ سکتے ہیں لیکن آج ہم سوچتے ہیں کہ فلاں نے نے شادی پر اتنا لگایا تو ہم کیوں پیچھے رہ جائیں لوگ کیا کہیں گے لوگ باتیں بنائیں گے اسی طرح ہم دکھاوا کرنے کیلئے ہر کام کرنے کو تیار ہوتے ہیں مثال کے طور پر اگر کسی کے پاس ایک اچھی چیز ہے تو ہم اپنی معاشی حالت دیکھی بغیر وہ چیز حاصل کرنے ہر جائز ناجائز کام کرنے کیلئے تیا ہو جاتے ہیں۔

Pretend

Pretend

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ آج دِکھاوا ہے آج کل زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جو کہ اس دکھاوا کی مرض میں مبتٰلا ہیں اسلام اس سے سختی سے سے منع کرتا ہے کیونکہ دکھاوا ایک ایسی مرض ہے جس کو لگ جائے وہ ذہنی مریض بن جاتا ہے وہ ہر وقت دہنی انتشار کا شکار ہو جاتا ہے اور انسان ہر وقت کسی نہ کسی سوچ میں مبتٰلا ہی رہتا ہے کیونکہ دِکھاوا ہمیشہ وہی انسان کرتا ہے جو کہ حقیت پسند نہیں ہوتا دکاوا مردوں کی نسبت عوتوں میں زیادہ دیکھنے کو کو ملتا ہیجیسے عورتیں ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی میں بہت سارے کام ایسے کر جاتی ہیں جب حقیقت کھلتی ہیں تو ان کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بہت سارے کام ہوتے ہیں آج کے جدید دور میں اگر ہم حقیقت پسندی کو اپنائیں تو ہم بہت ساری اخلاقی امراض سے چھٹکارا حاصل کرسکتے اگر ہمارے پاس اچھا لباس نہیں ہے تو ہم اپنی شان بڑھانے کیلئے کسی سے مانگ کر اپنی شان بھرہانے کیلئے حقیقت سے منہ موڑ لیتے ہیں جس طرح تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں بالکل اسی طرح آج انسان کی زندگی کے دو رخ ہیں ایک روشن اور ایک تاریک ہم ہر ایک کے سامنے اپنا روشن رخ ہی پیش کرتے ہیں۔

ہر انسان میں جہاں بہت ساری خوبیاں ہیں وہاں خامیاں بھی ہو گی ہمیں خامیاں چھپانے کی بجائے اپنی خامیوں کو دور کرنا چاہئے تا کہ ہمیں کسی طرح کے دکھوا کی ضرورت ہی نہ پیش آئے آج کا دور ایسا ہے کہ انسان کو کو جو نظر آرہا ہوتا ہے اصل میں وہ ہوتا نہیں ہیاگر غور کریں تو سیاستدان جو نظر آتے ہیں وہ نہیں ہوتے وہ دکھاوا کرنے کیلئے ووٹ لینے کے لئیے کیا کیا جتن نہیں کرتے لیکن جب ان کو اقتدار مل جاتا ہے تو ان لوگوں کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ان کے سب وعدے جھوٹے تھے جو وہ کررہے تھے سب دِکھاوا تھا دکھاوا کا دوسرا نام دھوکہ دینا ہے جیسا کہ عام زندگی میں دیکھنے کو ملتا ہے جیسے بعض لوگ ہر کام میں دکھاوا زیادہ کرتے ہیں تا کہ لوگ ان سے متاثر ہو کر ان کی عزت کریں ان کا نام ہو لیکن وہ لوگ اندر سے خودغرض ہوتے ہیں دکھاوا کتنا بھی اچھا کیوں نہ ہو دکھاوا ہی ہوتا ہے کیوں کہ حقیقت کو چھپانا بہت مشکل ہوتا ہے ایک دن ظاہر ہو ہی جاتی ہے۔

بقول شاعر
خوشبو آنہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے

اس لیئے انسان کو حقیقت پسند ہونا چاہیئے دِکھاوے کی زندگی نہیں جینا چاہیئے دکھاوا ایک بہت بڑا جھوٹ ہے جو کہ ہم اپنی انا اپنی عزت بچانے کیلئے بولتے ہیں لیکن اس کے ساتھ بہت سارے اور جھوٹ بھی بولنے پڑتے ہیں اور انسان گناہوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے دینی و دنیاوی لحاظ سے دکھاوا کا بس نقصان ہی ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اس لیئے اس سے بچنے میں ہی دانائی ہے ایک عام انسان خود کو ڈاکٹر ظاہر کرے تو وقتی طور پر تو سب مان لیں گے لیکن جب حقیقت کھلے گی تو اس بندے کو کتنی شرمندگی اُٹھانی پڑے گیاس لیئے انسان کو حقیقت پسند ہونا چاہیئے دکھاوے کی زندگی شرمندگی کا باعث بن سکتی ہے۔

Azhar Iqbal Mughal

Azhar Iqbal Mughal

تحریر : اظہر اقبال مغل، لاہور