بسنت بہار اور لاہوری خزاں

Basant

Basant

تحریر : محمد عرفان چودھری

” ابھی اُمید کی سرسوں کہیں نہیں پھولی
بسنت کا ہے زمانے کو انتظار ابھی
تہی سبوئی کسی کی یہ کہہ رہی ہے شریف
نظام مے کدہ بدلے گا ایک بار ابھی”

2005 ء میں آخری بار لاہور میں بسنت منائی گئی کیونکہ اس کے بعد پتنگ بازی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی یہ پابندی پورے پنجاب میں لگائی گئی مگر اس کا زیادہ اثر لاہور پہ ہوا کیونکہ بسنت کا زیادہ رحجان لاہور ، قصور اور گردو نواح کے علاقوں میں رہا ہے بسنت کے متعلق کئی متضادآ رائیں پائی جاتی ہیں بعض اسے ہندوئوں کا تہوار گرادنتے ہیں تو بعض اسے چین سے منسوب کرتے ہیں جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ بسنت کا مذہب یا کسی ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ ایک تفریح ہے اور اسے تفریح ہی سمجھا جائے نا کہ مذہبیت کے نام پر انارگی پھیلائی جائے۔ ہمیں یہاں پر زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ جتنے منہ اُتنی باتیں کے مصداق بات کہیں سے کہیں نکل جائے گی اس لئے بات کرتے ہیں کہ لاہور میں وہ کونسی وجوہات تھیں جن کی بناء پر ایک علاقے کی ثقافت سمجھے جانے والے تہوار پر پابندی لگا دی گئی اور تقریباََ بارہ سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس پابندی کو نہیں ہٹایا گیا 2005ء سے پہلے تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا ہر سال بیرون ملک سے لوگ بسنت منانے کے لئے زندہ دلان شہر لاہور کا رُخ کرتے تھے جس سے ملکی معشیت پر بڑے مثبت اثرات پڑتے تھے اور کئی لوگوں کے چولہے اس تہوار کی بدولت جلتے تھے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق بسنت پر ایک ایک چھت کا کرایہ ستر ہزار روپے سے چار لاکھ روپے تک ہوتا تھا اور اس کاروبار سے لاہور اور گردونوح میں تقریباََ ڈیڑھ لاکھ جبکہ گوجرانوالا و قصور میں ایک لاکھ اسی ہزار لوگ وابستہ تھے جو کہ حکومتی ناقص پالیسیوں کی بدولت آج گھروں میں بیٹھے اپنے بجھے چولہے پھر سے جلنے کا انتظار کر رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو بسنت کے موقع پر تقریباََ پانچ سے چھ بلین روپے کا کثیر زرِمبادلہ حاصل ہوتا تھا یہ تو تھا اُن لوگوں کا تعارف جن کے روزگار بسنت جیسے تہوار کے ساتھ جُڑے تھے۔

اب بات کرتے ہیں اُن لوگوں کی جو کہ پتنگ بازی کے شوقین ہیں سارا دن دفتروں ، فیکٹریوں، کارخانوں اور مزدوری کر کے گھر واپس آنے والے لوگ چند لمحات پتنگیں اور گُڈے اُڑا کر سارے دن کی تھکن دور کیا کرتے تھے اور جو لوگ اُڑاتے نہیں تھے وہ آسمان پہ سجی رنگ برنگی پتنگوں کے پیچ دیکھ کر جی کو بہلایا کرتے تھے مگر اچانک سے اک شور شرابہ شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے بسنت پر پابندی عائد کر دی گئی جن کی بڑی وجوہات موٹر سائیکل سوارکی گردن پر ڈور پھرنے کی وجہ سے ہلاکتیںہونا شروع ہو گئیں جن کے تدارک کے لئے موٹر سائیکل سواروں کو یونین کونسلوں کی بنیاد پر لوہے کے راڈ موٹر سائیکل پر لگانے کے لئے دیے گئے مگر یہ تدبیر ہمیشہ کی طرح سیاست کا شکار ہو گئی۔

Kite Flying in Lahore

Kite Flying in Lahore

اس تہوار کی پابندی پر زیادہ زور میڈیا نے دیا اور یوں بجائے اُن وجوہات کے متعلق جس بناء پر نقصانات ہوتے تھے کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کرتے پنجاب کی ثقافت بسنت پر پابندی لگا دی گئی جس کی وجہ سے لاہوریوں سے سستی تفریح اور غریب لوگوں کی روزی روٹی چھین لی گئی میں یہاں پر واضع کرتا چلوں کہ میں بسنت کے خلاف نہیں ہوں اور بسنت کی وجہ سے جو ہلاکتیں ہوئیں اور جو حکومت کو بجلی کی مد میں نقصان ہوا اُس پر بھی نوحہ کناں ہوں مگر کچھ گزارشات حکومت سے ہیں کہ بجائے بسنت پر لگی پابندی کو برقرار رکھنے کے کائیٹ فلائینگ ایسوسی ایشن کے ساتھ مل کر ایک لائحہ عمل تیار کیا جائے جس کی وجہ سے لاہوری دوبارہ سے سستی تفریح کے مزے اُڑا سکیں اور رواں برس فروری یا مارچ میں بسنت منانے کی مشروط اجازت دی جائے نا کہ اس کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے گزارشات یہ ہیں کہ:

دھاتی تار اور تندی سے پتنگ اُڑانے کی اجازت نا دی جائے۔
ہوائی فائرنگ کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے۔
شراب پینے کی قطعاََ اجازت نا دی جائے۔
بہت زیادہ تیز مانجھا لگی ڈوڑ سے اجتناب کیا جائے۔

آئے دن سڑکوں پر دھرنے دئیے جاتے ہیں، جلسے جلوس نکالے جاتے ہیں جس سے معشیت کا پہیہ جام ہو جاتا ہے اس لئے بسنت کے موقع پر موٹر سائیکل چلانے پر پابندی عائد کر دی جائے تا کہ جانی نقصان نہ ہو اور یہ پابندی ایسی ہو گی کے بجائے معشیت کو نقصان پہنچنے کے معشیت کا پہیہ تیزی سے گھومے گا ۔ ملک میں ویسے بھی لوڈ شیڈنگ عروج پر ہے تو بسنت کے موقع پر دن کے اوقات میں بجلی بند کر دی جائے اس سے ملک میں بجلی کی کمی بھی پوری ہو جائے گی اور فیڈر بھی ٹرپ نہیں ہوں گے۔

سب سے اہم بات کہ بسنت منانے کے علاقے مخصوص نا کئے جائیں کیونکہ پتنگ بازی کا جو مزہ اپنی فیملی کے ساتھ اپنی چھتوں پر منانے میں ہیں وہ مخصوص علاقوں میں جا کر منانے میں نہیںہے کیونکہ برکھا رُت میں پیلے پیلے سرسوں کے پھول کھیت کھلیان میں بھلے نظر آتے ہیں ۔
وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے درخواست ہے کہ لاہوریوں کو اُن کا حق واپس دلایا جائے بسنت پر لگی پابندی کو ختم کیا جائے تا کہ لوگ گھٹن زدہ ماحول، مہنگائی کے ڈسے ہوئے ناگوں اور آئے دن قتل و غارت گری سے سہمے ہوئے اپنے گھروں میں چند لمحے خوشیوں کے گزار سکیں کیونکہ لاہور میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ نظر گرائونڈ ختم ہو چکے ہیں اور یوں عوام خاص کر نوجوان نسل وقت گزاری کے لئے سنوکر و بلئیرڈ کلبوں کا رُخ کرنے لگے ہیں جس کی بدولت اُن کے تعلقات جرائم پیشہ لوگوں سے بن رہے ہیں۔

یوں نوجوان نسل گمراہی کی جانب گامزن ہو رہی ہے اس کے علاوہ نوجوان انٹرنیٹ اور بے جا کال اور میسجز پیکج کی بدولت دُنیا ما فیہما سے بے خبر بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں اس لئے یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور پنجاب کی ثقافت بھی کہ بسنت کو بحال کیا جائے تا کہ نوجوان نسل بجائے غلط جانب جانے کے اپنے گھروں میں اپنے بزرگوں کے زیرِ سایہ بسنت منا سکیں اور اگر یہ ممکن نہیں تو پورے ملک میں پابندی عائد کی جائے کیونکہ قانون سب کے لئے ایک جیسا ہونا چاہیے نا کہ صرف لاہوریوں کے لئے میں اُمید کرتا ہوں کہ وزیر اعلیٰ ہر سال کی طرح اس سال بھی لاہور میں بسنت منانے کا لولی پوپ دینے کی بجائے کائیٹ فلایئنگ ایسوسی ایشن کے ساتھ مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل تیار کریں گے اور لاہوریوں کو اُن کی بسنت واپس لوٹائی جائے گی تا کہ اس افرا تفری کے دور میں لوگ چند لمحے سکون کے گزار سکیں اور ایک دوسرے کے قریب آ سکیں اس نفسا نفسی کے دور میں چھتوں پر کھڑے بو کاٹا کے نعرے لگا سکیں کیونکہ بسنت مذہبی نہیں بلکہ بہار کی آمد کی نوید ہے۔

بقول شاعر!
”طلسم ہو شربا میں پتنگ اُڑتی ہے
کسی عقب کی ہوا میں پتنگ اُڑتی ہے
چڑھے ہیں کاٹنے والوں پہ لوٹنے والے
اسی ہجوم بلا میں پتنگ اُڑتی ہے
پتنگ اُڑانے سے کیا منع کر سکے زاہد
کہ اس کی اپنی عبا میں پتنگ اُڑتی ہے
کہیں چھتوں پہ بپا ہے بسنت کا تہوار
کہیں پہ تنگی جا میںپتنگ اُڑتی ہے”

Mohammad Irfan Chaudhry

Mohammad Irfan Chaudhry

تحریر : محمد عرفان چودھری
ڈپٹی سیکریٹری کو آرڈینیشن
پاکستان فیڈرل یُونین آف کالمسٹ
+92-313-4071088