شام کے صدر بشار الاسد کو امید کہ ٹرمپ اتحادی بن سکتے ہیں

Bashar al-Assad

Bashar al-Assad

شام (جیوڈیسک) شام کے صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ انھیں امید ہے کہ امریکہ کے نو منتحب صدر ڈونلڈ ٹرمپ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہوں گے تاہم انھوں نے ٹرمپ کے بارے میں کوئی رائے دینے میں ‘احتیاط’ سے کام لیا۔

بشار الاسد کا مزید کہنا تھا کہ اگر ٹرمپ نے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے وعدے کو پورا کیا تو وہ ان کے ‘فطری اتحادی’ ہوں گے۔

‘تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھیں اس بات پر شک ہے کہ آیا ٹرمپ اپنے وعدوں پر عمل کریں گے۔’

ڈونلڈ ٹرمپ اس سے پہلے کہہ چکے ہیں شامی افواج اور خود کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کے شدت پسندوں کی مخالفت ‘پاگل پن’ ہو گا اور یہ کہ شام کی لڑائی روس تک پہنچ سکتی ہے۔

پرتگال کے سرکاری ٹی وی آر ٹی پی کو انٹرویو دیتے ہوئے بشار الاسد نے کہا ‘ہم ٹرمپ کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں لیکن اگر انھوں نے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی کی تو یقیناً ہم فطری اتحادی ہونے جا رہے ہیں۔ اس فطری اتحا میں روس، ایران اور دوسرے متعدد ممالک شامل ہوں گے۔’

شامی صدر کے مطابق ٹرمپ نےدولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی پر توجہ دینے کا ‘وعدہ’ کیا تھا تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا ‘کیا ٹرمپ ایسا کر پائیں گے؟’

انھوں نے کہا امریکی انتظامیہ میں متلافی فورسز کے بارے میں کیا، مرکزی میڈیا ان کے خلاف تھا، وہ اس سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک یہ ہمارے لیے مشکوک ہے اور اسی لیے ہم ٹرمپ کے بارے میں فیصلہ کرنے میں بہت محتاط ہیں۔

امریکہ کی شام کے بارے میں موجودہ پالیسی یہ ہے کہ دولت اسلامیہ اور دیگر جہادیوں کے خلاف کارروائی اور صدر بشار الاسد کے مخالف معتدل باغیوں کی حمایت کی جائے۔

شام میں انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ شامی حکومت کے طیاروں نے تین ہفتوں میں پہلی بار حلب میں باغیوں کے زیرِ قبضہ مشرقی علاقوں میں بمباری کی ہے

اپنے ٹی وی انٹرویو میں بشار الاسد نے ایک بار پھر امریکہ کی موجودہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ‘وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کی پولیس ہیں، ان کا خیال ہے کہ وہ دنیا کے جج ہیں لیکن وہ نہیں ہیں۔’

شامی صدر نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان کو ‘بیمار آدمی’، ‘احساس برتری کا شکار’ اور ‘حقیقت کے ساتھ رابطے سے باہر’ شخص قرار دیا۔

واضح رہے کہ ترکی نے شام کے صدر بشار الاسد کے مخالفین کی حمایت میں کارروائیاں کی تھیں۔ دوسری جانب شام میں انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ شامی حکومت کے طیاروں نے تین ہفتوں میں پہلی بار حلب میں باغیوں کے زیرِ قبضہ مشرقی علاقوں میں بمباری کی ہے۔

برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم سیرئین آبزرویٹری کے مطابق اس بمباری میں کم سے کم پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ شامی حکومت اور اس کے اتحادی روس نے رواں برس اکتوبر کے اوائل میں حلب میں عام شہریوں اور باغیوں کو حلب چھوڑنے کی اجازت دینے کے لیے فضائی حملوں کو روک دیا تھا۔