داغدار

Democracy

Democracy

تحریر : طارق حسین بٹ
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت جمہوریت ہی سکہ رائج الوقت ہے اور جمہوری روح سے فرار کسی کیلئے بھی ممکن نہیں ہے۔ہر قوم کی گاڑی جمہوریت کی پٹری پر چل کر ہی اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ سکتی ہے۔دہشت گردی کے موجودہ ماحول میں جمہوریت سے گریزدر اصل لاقانونیت کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔جمہوریت در اصل آئین و قانون اور ضابطوں کے سامنے سر نگوں ہونے کا دوسرا نام ہے لہذا اس کا ساتھ دیا جانا ضروری ہے۔جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اس میںجوابدہی او راحتساب کا مادہ بدرجہِ اتم موجود ہے۔جمہوریت ہمیں قانون کے سامنے جھکنے کا درس دیتی ہے اور اس کی نظر میں اعلی و برتر اور طاقتور کا کوئی تصور نہیں ہے۔اس کے سامنے طاقتور اور کمزور کا نہیں بلکہ اس میں صرف مجرم اور گنہگار کا تصور ہے۔کوئی طاقتور ہونے کے با وجود قانون کے شکنجے سے نہیں بچ سکتا اور کوئی غریب ہونے کے باعث ظلم وجبر اور نا انصافی کا شکار نہیں ہو سکتا۔جمہوریت عوامی رائے سے اقتدار کی قسمت کا فیصلہ کرتی ہے اور اس فرد کے سر پر ہما رکھتی ہے جو اس کا اہل ہوتا ہے۔عوامی رائے کو اپنے حق میں موڑنا ایک ایسا مشکل کام ہوتا ہے جو ہر کس و ناقص کے بس میں نہیں ہوتا صرف اہلِ علم،اہلِ نظر اور اہلِ فراست لوگ ہی اس مسند کے سزا وار بنتے ہیں۔اپنی رائے سے عوام کو ہمنوا بنانے کے لئے نگر نگر اور قریہ قریہ جاتے ہیں اور انھیں اپنی آواز میں آواز ملانے کے لئے دلائل کے ڈھیر لگا دیتے ہیں تب کہیں جا کر عوام ان کی زبان اور نعروں پر اعتماد کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے لئے با اعتماد ہونا انتہائی اہم شرط ہوتی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ قائدین اپنی ذات کو غیر متنازع بنانے کے لئے سخت محنت کرتے ہیں کیونکہ کردار کی عظمت ہی ان کا سب سے موثر ہتھیار ہوتا ہے۔ جب عوام کی نگاہ میں کوئی قائد گفتا رو کردار کا حسین مرقع بن جاتا ہے تو پھر وہ محبوبِ خلائق کی مسند پر جلوہ افروز ہو جاتا ہے۔قائدِ اعظم محمد علی جناح اور ذو لفقار علی بھٹو اس کی واضح مثالیں ہیں جن کی شخصیت کے اثرات آج بھی سیاست میں محسوس کئے جاتے ہیں۔عمران خان اور میاں محمد نواز شریف انتخابی سیاست میں اپنی قوت کا اظہار کر رہے ہیں لیکن اس مقام سے کوسوں دور ہیں جسے قائدِ اعظم محمد علی جناح اور ذو لفقار علی بھٹو نے قائم کر رکھا ہے۔ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی نے تو اسے افسانوی کردار بنا رکھا ہے لہذان کے اثرات کی شدت کا معیار دوسرا ہے جبکہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کو اپنی فہم و فراست اور اپنے سارے مخا لفین کو چاروں شانے چت کرنے کی وجہ سے تاریخِ عالم میں یاک منفرد مقام حاصل ہے۔

ان کی شخصیت کا سب سے دلچسپ پہلو یہی ہے کہ انھوں نے تنِ تنہا انگریزوں،ہندوئوں اور ملا ازم کو شکست سے ہمکنار کیا اور دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو قائم کر کے اپنے مخا لفین کو مبہوت کر دیا۔پاکستان جمہوری عمل کا سب سے حسین تحفہ ہے لہذا کوئی بھی پاکستانی جمہوریت کے علاوہ کسی بھی اندازِ حکمرانی کو خوش آمدید نہیں کہہ سکتا لیکن اس کے باوجود کئی بار ایسا ہوا کہ جمہوریت عوامی فکر کے سانچے میں ڈھلنے اور عوامی پذ یرائی حا صل کرنے میں ناکا م رہی۔ایسا کیوں ہوا کہ جمہوریت پر یقین رکھنے والی قوم جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کی ہمنوا بن گئی اور جمہوریت کا غلغلہ بلند کرنے والے ان کی بے توجیحی کا شکار ہو گئے۔

Pakistani Politicians

Pakistani Politicians

در اصل پاکستان میں جمہوریت اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں ناکام رہی ا ور جمہوری قدروں کی مضبوطی کی بجائے خاندانی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی۔یہ سچ ہے کہ ہر شخصیت اپنا اثررکھتی ہے جس کی وجہ سے عوام اس مخصوص خاندان کے ساتھ اپنا تعلق قائم کر لیتے ہیں اور یوں خا ندانی سیاست کی بنیادیں پڑجاتی ہیں۔برِ صغیر میں ادنی و اعلی کے تصور، ذات پات کے تصور اور خاندانی تفاخر کے عنصر نے بھی خاندانی سیاست کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کیا۔تعلیم سے محرومی اور جاگیر داری نظام نے بھی اس تصور کو مضبوط کرنے میں اہم کردار دا کیا۔تعلیم کے فقدان کی وجہ سے خیالات میں پختگی اور سچ کی پہچان کے وجدان سے محرومی بھی خاندانی سیاست کو مسلط کرنے میں پیش پیش رہی ہے۔جاگیر دا روں کے تسلط اور اثر و رسوخ نے بھی خاندانی طرزِ فکر کو پختہ تر کیا اور یوں پاکستانی قوم حقیقی جمہوری منزل سے کوسوں دور ہو گئی۔

اس وقت جمہوریت سرمایہ داروں کی جھولی میں گری پڑی ہے۔ایک مخصوص طبقہ سیاہ و سفید کا مالک بنا بیٹھا ہے ۔مسائل کے انبار کی وجہ سے ایشیا میں جمہوریت اپنی افادیت کھوتی جا رہی ہے کیونکہ ایک مخصوص طبقے نے عوام کو یرغمال بنا لیا ہے۔عوام اس طرزِ عمل سے نجات چاہتے ہیں لیکن انھیں کوئی راہ نہیں سجھائی دے رہی کیونکہ سیاست گھوم گھما کر ان چند خاندانوں کے گرد گھومنا شروع کر دیتی ہے۔بھٹو خاندان ،شریف خاندان،ولی خان خاندان،فضل الرحمان خاندان اور چند مخصوص سردار اور وڈیروں نے اپنے اپنے علاقوں میں اپنی ریاستیں قائم کر رکھی ہیں۔

یہ خاندان پچھلی کئی دہائیوں سے سیاست کے نا خدا بنے ہوئے ہیں اور عوام ان کے سامنے کٹھ پتلیوں کی طرح ناچ رہے ہیں۔عوام موجودہ نظام میں تبدیلی کی راہ دیکھ رہے ہیں لیکن یہ سارے خاندان اس تبدیلی کی راہ میں روک بن کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ لوگوں کی بے شمار آرزوئوں کے باوجود تبدیلی کی ہوا اپنا اثر دکھانے سے معذور ہے کیونکہ موجودہ جمہوری نظام میں تبدیلی کا رونما ہونا نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔

Imran Khan

Imran Khan

عمران خان نے تبدیلی کے لئے جس طرح اپنی توانائیاں وقف کر رکھی ہیں وہ بھی اپنا جادو جگانے میں ناکام رہی ہیں۔ان کی آواز میں اب پہلے والی گن گرج سنائی نہیں دے رہی کیونکہ ریاست کے کئی اداکار ان کی کوششوں پر پانی پھیرنے کے لئے بڑے بے چین نظر آتے ہیں۔عوامی سیلاب کو روکنے کے لئے جب کچھ نہیں بن پاتا تو پھر دھاندلی کے ذریعے سے تبدیلی کا راستہ روک لیا جا تا ہے۔مئی ٢٠١٣ کے انتخابات اس کا واضح ثبوت ہیں جس میں کھلے عام دھاندلی کا ارتکاب کیا گیا۔چار حلقوں میں دوبارہ انتخا بات کا حکم اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔دو حلقوں میں جس طرح مسلم لیگ (ن) کو حزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

این اے ١٢٢ میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ایاز صادق کی اڑھائی ہزار ووٹو ں سے دھاندلی شدہ جیت اور حلقہ این اے ١٥٤ میں تحریکِ انصاف کے امیدوار جہانگیر ترین کی چالیس ہزار ووٹوں سے جیت اس الزام کو سچ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ مئی ٢٠١٣ کے انتخاپا ت شفاف نہیں تھے۔خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف کے حلقوں کے بارے میں انتخابی معرکہ برپا ہونا ابھی باقی ہے لیکن باوثوق حلقوں کا کہنا ہے کہ ان حلقوں میں بھی مسلم لیگ (ن) کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑیگا جو مسلم لیگ (ن) کے دامن کو مزید داغدار بنا دیگا۔

این اے ١٥٤ میں جہانگیر ترین کی واضح جیت نے جس طرح سے مسلم لیگ (ن) کو زک پہنچائی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ایسے لگتا ہے کہ پنجاب کی سب سے مضبوط جماعت کو اپنی بقا کیلئے سخت جدو جہد کرنی پڑیگی ۔ا سٹیٹسکو کا دم بھرنے والی جماعتوں کیلئے کڑا وقت آن پہنچا ہے لہذا انھیں اپنی بقا کی فکر کرنی چائیے پی پی پی تو پہلے ہی بے وقت موت مر چکی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) جو خود کو پنجاب کی چیمپین کہتی ہے تحریکِ انصاف کے ہاتھوں شرمناک شکست سے دوچار ہو رہی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ اسٹیٹسکو کے دن گنے جا چکے ہیں۔،۔

Tariq Butt

Tariq Butt

تحریر : طارق حسین بٹ