وقت انمول ہیرا اس کی قدر کریں

Time

Time

تحریر : عائشہ مجیب، کراچی
وقت سے ہی وقت کی بات ہے۔ اس کی عمر دراز، بڑا دل، تیز رفتاری لکھ دی گئی اس کے نصیبوں میں۔ کہ وقت کے نصیبوں میں صرف آگے بھڑنا ہے ۔۔ وقت چل رہا ہے ؟ وقت بھاگ رہا ہے ؟ یا وقت گزر رہا ہے۔؟؟؟ کچھ بھی ہے۔اس نے جانا ہے اور جب یہ جاتا ہے تو پیچھے کچھ نہ کچھ چھوڑ جاتا ہے۔ بالکل کسی طوفان کی طرح۔ طوفان بھی جب گزر جاتا ہے تو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ کیا کچھ بدل گیا۔کبھی کبھی وقت کسی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سا بھی لگتا ہے جو بہت نرمی سے چھو کر گزر جاتا ہے۔مگر ، گزر تو جاتا ہی ہے۔ زندگی میں ایسے لمحے بھی آتے ہیں کہ دل کرتا ہے کہ کسی طور بھی یہ لمحے نہ گزریں۔ کاش۔۔ کاش کوئی تو روک سکے وقت کو کبھی۔۔۔ کاش کوئی تو اسے آواز دے کہ تھم جائے مگر یہ کہاں کسی کی سنتا ہے۔

اس وقت نے کبھی کسی کو نہ دیکھا۔کبھی کسی کو نہ سنا۔کبھی کسی سے نہ بولا۔یہ وقت ظالم بھی کہلاتا ہے۔اس کا ظلم ، واقعی ظلم ہوتا ہے ایسا ظلم جس کا کہیں ،کوئی اذالہ نہیں۔ وقت گزر جاتا ہے مگر چھوڑ جاتا ہے اپنے نشان۔اور پھر اس کے نشان کھرچنے سے بھی نہیں ہٹتے۔نہیں جاتے۔وقت کا پڑھایا سبق انسان میں خون کی مانند دوڑتا ہے۔یہ ایسا درس دیتا ہے کہ کہیں کوئی استاد نہ سکھا سکے۔۔ وقت کی دھار بہت تیز ہوتی ہے۔ کٹ جائے تو عمر کٹ جاتی ہے۔مگر اس کی تیزی کم نہیں ہوتی۔ وقت چال بھی چلتا ہے۔ اور جب یہ چال چلتا ہے تو پوری کایا پلٹ جاتی ہے۔ڈریں وقت کی چال سے ۔ کبھی کبھی تو اتنی خطرناک چال چلتا ہے کہ پھر ساری زندگی اسکی بھیانک آوازیں کانوں میں گونجتی رہتی ہیں۔شور مچاتی ہوئی بے پرواہ وقت کی چیخیں کان پھاڑتی ہیں۔ وقت آگے آگے اور ہر کوئی وقت کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔وقت کے ساتھ قدم ملانا چاہتا ہے مگر نہ ممکن۔ایک دن وقت ہر کسی کو پیچھے بہت پیچھے چھوڑ جائے گا کہ اس کا پیچھا کرنے والوں کا نام و نشاں باقی نہیں رہے گا۔ جبکہ وقت ،وقت ہی رہے گا اور آگے بڑھ جائے گا۔ مڑ کر دیکھتا بھی نہیں کہ اسکی تیز رفتاری میں کون اسکے پاؤں تلے روندا گیا۔ یاد رکھیئے۔ و قت کسی کو وقت نہیں دیتا۔۔ وقت ہمیشہ سے تھا۔۔وقت ہمیشہ رہے گا۔ وقت کسی سورج کیطرح ڈوبتا بھی ہے۔۔ وقت ابھرتا بھی ہے۔وقت کسی سورج کیطرح ڈوبتا بھی ہے۔ وقت ابھرتا بھی ہے۔

ابھر کر پھر ڈوب جاتا ہے۔ڈوب کر پھر ابھرتا ہے مگر اس کا سفر کبھی نہ ختم ہونے والا سفر ہے۔وقت ہمیشہ سے مسافر ہے اور ہمیشہ سفر کرتا رہے گا اسکی کوئی ،کہیں منزل نہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ وقت بہت سوں کو منزلیں دکھا کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ کسی بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھا کر۔ کسی پریشان حال کو سایہ دے کر۔کسی بے کس کو سہارا دے کر۔ کسی پیاسے کو سیراب کر کے۔ کسی عقل کے اندھے کو راستہ د کھا کر۔کسی کو اپنی یادیں دے کر۔ کسی کو اپنا احساس دلا کر۔ وقت چلا جاتا ہے۔کوئی کتنا ہی سسکتا رہ جائے۔تڑپتا رہ جائے۔

چیختا چلاتا رہ جائے مگر کسی بے رحم کی طرح سب کی آوازیں ان سنی کرتارہا ہے۔ اس لیے وقت کب سے تھا پتہ نہیں۔ کب تک رہے گا پتہ نہیں۔ہاں لیکن اگر ہم دھیان دینا چاہیں تو اپنی اپنی زندگیوں پر جو وقت کی تھوڑے سے حصے پر مشتمل ہے۔ہماری پہلی سانس سے لے آخری سانس تک۔ وقت کا بہت تھوڑا سا حصہ ہے۔ اگر ہم کچھ کر سکتے ہیں تو صرف اتنا کے عقل آ جانے کے بعد زندگی کو ضائع مت کریں۔ کہتے ہیں وقت کی قدر کریں کیوں کہ وقت نے گزر جانا ہے۔در حقیقت وقت نے تو پتہ نہیں کب تک رہنا ہے۔۔۔گزر تو ہم نے جانا ہے۔۔۔اپنی اپنی زندگیوں کی قدر کیجئے۔زندگیوں کو ضائع نہ کیجئے۔بڑے سے وقت کے ملے چھوٹے سے حصے میں اپنی معصوم زندگی کے ساتھ زیادتی نہ کیجئے۔وقت کا حصہ جو آپکو ملا ہے اس کا بھرپور فائدہ اٹھا لیں۔ تاکہ آپ کے گزر جانے کے بعد یہ وقت آپکی یادگاریں خود آگے بھیجے۔

تحریر : عائشہ مجیب، کراچی