سیٹھوں کی سازش

Bol

Bol

تحریر : وسیم رضا
بیس سال سے پاکستان کے پرائیویٹ سیکٹر میں کامیا بیاں سمیٹنے والے آئی ٹی ادارے ایگزیکٹ جس میں ہزاروں پاکستانی گریجویٹ بچے بچیاں کام کر رہے ہیں اس کے بارے میں نیو یارک تائمز کی ایک سٹوری پر پاکستانی حکومت کا ردعمل انتہائی حیرت انگیز اور افسوس ناک ہے ، یہ تحقیقا تی نیوز سٹوری نیو یارک ٹائمز کے سحافی ڈیکلن وا لش کے زریعے منظر عام پر آ ئی، ڈیکلن والش وہ امریکی صحافی ہے جسے چند سال قبل پاکستان سے یہ کیہ کر نکال دیا گیا تھا کہ یہ شخص پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کر رہا ہے ۔غیر جانبدارنہ انداز سے سے جائزہ لیا جائے تو IT ( انفارمیشن ٹیکنالوجی) کے شعبے میں کام کرنے والا پاکستان کا یہ سب سے بڑا ،منظم اور کامیاب ادارہ کسی زیر زمین تیہ خانے میں بنا ہو ہوا کوئی خفیئہ اداہ تو نہیں تھا کہ اس پر ریاست کے کسی ادارے کی آج تک نظر نہ پڑی ہو ، لیکن اچانک قانون نافذ کرنے والے ادارے یوں حرکت میں آئے کہ جیسے وہ امریکی ا خبار مین چھپنے والی اس انوسٹی گیٹیو سٹوری کے شائع ہونے ہی کا انتظار کر رہے تھے۔

ہم یہ بھی بھول گئے کہ کسی فرد یا ادارے پر جب تک الزام ثابت نہ ہوجائے اس وقت تک وہ معصوم ہی ہوتا ہے ۔ ایگزیکٹ پر جعلی ڈگریاں بیچنے، سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کو الحاق کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے الزام پر ایکشن لینے کے لئے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے پوچھا گیا تو امریکہ کے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ہماری حکومت اور ہمارے میڈیا سے کہیں زیادہ زمہ داری کا مطاہرہ کیا اور جواب دیا کہ ہم اس کیس کی انکوائری کریں گے،اس سے پہلے ہم نہ کچھ کر سکتے ہیں نہ کیہ سکتے ہیں ، یہ ہوتا ہے کسی زمہ دار سٹیٹ یا حکومت کا رویہ کہ سب سے پہلے وہ یہ دیکھے کہ اس کے کسی بھی ایکشن سے ملک کی بدنامی تو نہیں ہو گی یا ریاست اور اس کے عوام کے اندر کوئی غیر ضروری افراتفری تو نہیں پھیلے گی۔

اب زرا دیکھئے نیو یارک ٹائمز کی اس خبر پر ہمارے میڈیا نے کیا کردار ادا کیا اور یہ کہ وہ کردار صحافتی تقا ضوں پر کتنا پورا اترتا ہے۔ وا ضح رہے کہ نیو یارک ٹائمز میں اس طرح کی سسپنس سے بھرپور سٹوریوں کا منکشف ہونا کوئی نئی بات نہیں ،بالخصوص جب وہ پاکستان کے متعلق ہوں ۔ پاکستان کے اکثریتی میڈیا اور چند میڈیا مالکان نے اپنے اپنے چینل اور اخبارات کے زریعے اس سکینڈل نما خبر کو یوں اچھالا اور ایگزیکٹ اور ایگزیکٹ کے مالک شعیب ا حمد شیخ کا اتنی بے رحمی سے میڈیا ٹرائل کیا کہ واضح طور پر اندازہ ہوا کہ ان چند میڈیا مالکان کا اس خبر سے براہ راست کو ئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔

Shoaib Ahmed Shaikh

Shoaib Ahmed Shaikh

روزمرہ کے مشاہدے کی بات ہے کہ محلے کا موالی دغا دے کر ، بھتہ خو ر ڈرا کر اور طاقتور دھمکا کر ہر اس شخص کے مال سے اپنا حصہ وصول کرنا اپنا حق سمجھتا ہے جس کے بارے میں شکاری کو یقین ہو کہ شکار کے پاس پیش کرنے کے لئے اس کی اپنی ضرورت سے زیادہ کچھ نہ کچھ موجود ہے، لو ٹ کھسوٹ کی یہ روش ہماری موجودہ سوسائٹی کا وطیرہ ہے ، زور آور کمزور کو اور کمزور بے بس کو ہڑپ کرنے میں مگن لگا ہے ایگزیکٹ کے معاملہ ان تمام نوعتوں سے سے زرا مختلف ہے ، ایگزیکٹ کے پیچھے حسد کا عنصر کارفرما ہے ، اور یہی عنصر ایگزیکٹ کے سنسنی خیز معاملے کا قابل زکر اور اہم تریں پہلو ہے۔ ا ئیے اس کی تفصیل دیکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ ایگزیکٹ نے ایسا کیا جرم کر دیا ہے کہ اس کا نام ٹی سٹالوں سے پارلیمنٹ کے ایوانوں تک ہر جگہ گونج رہا ہے۔ صحا فیوں ، سیاستدانوں بزنس مینو ں حتی کہ مزہبی جماعتوں کا ایک خاص مائنڈ سیٹ واویلا کرنے میں مصروف ہے کہ ایگزیکٹ نے پاکستان کو بدنام کر کے رکھ دیا ہے اور وہ خدا نخواستہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔

احوال یہ ہے کہ ایگزیکٹ نے ایک نیوز چینل بول کے نام سے لانچ کیا ہے جس میں صحافی کارکنوں کو اچھے معاوضے اور کام کرنے کا مثالی ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ بول کا کراچی آفس سہولیات اور جدت کے اعتبار سے کسی بھی بین الا قوامی نیوز چینل کے سیٹ اپ کسی بھی طرح کم نہیں۔ صحت مند مقابلے اور مسابقت کی منفرد پہچان لیکر میدان میں اترنے والی اس نیوز آرگنائزیشن سے پاکستانی میڈیا کو کنٹرول کرنے والے کچھ میڈیا مالکان کے مفادات داو پر لگ گئے ہیں ، صحافت سے متعلق لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج کے پاکستانی میڈیا سے منسلک کارکنوں کو اکثر اوقات تنخواہیں بھی وقت پر نہیں ملتی ویج ایواڈ پر عمل درآمد تو دور کی بات ہے اس پر ستم یہ کہ ان کے ساتھ باعزت رویہ بھی اختیار نہیں کیا جاتا اور کام کی نوعیت کے اعتبار سے ان کی زندگیوں کے تحفظ کے لئے کئے اقدامات ناکافی ہیں ، بول چینل کا دعوی ہے کہ وہ صحافتی کارکنو ں کے لئے تمام تر ایسی سہولتیں فراہم کرے گا جو ان کا حق ہے ا و ر یہ کہ اپنے چینل کے زر یعے ایک اچھا پاکستان دکھائے گا ، وہ پاکستان جسے میڈیا کئی برسوں سے نہ رہنے کی جگہ بنا کر دکھا رہا ہے۔

ایگزیکٹ اور بول ٹی وی کے مالک شعیب احمد شیخ کے مطابق یہ سیٹھوں کی سازش ہے، جو ایگزیکٹ کو بند کرواکر بول ٹی وی کا پراجیکٹ رکوانا چاہتے ہیں ان سیٹھوں کو ڈر ہے کہ اگر بول ٹی وی چل پڑا تو انھیں بھی اپنے ملازمین کو بول ٹی ی جیسی سہولتیں دینی پڑیں گی۔ شعیب احمد شیخ نے ایگزیکٹ کے خلاف گزشتہ کئی دنوں سے چلائی جانے والی یک طرفہ اور ازیت ناک مہم کے حوالے سے پہلی بار اپنا موقف دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں پورے ایمان کے ساتھ خدا کو حاضر نا ظر جان کر کہتا ہوں میں جو کیہ رہا ہوں ٹھیک کیہ رہا ہوں اور اگر میں غلط کیہ رہا ہوں تو اس کا ثبوت لائیں ، ہم الزام لگانے اور ان الزامات پر غلط طریقے سے ہمارا میڈیا ٹرائل کرنے والوں کے خلاف عدالت میں جا رہے ہیں ، نیو یارک تائمز کے خلاف بھی کیس کریں گے لوکل میڈیا کے پریشر پر ایک انکوائری شروع ہو گئی ہے با لکل ہونی چاہئے لیکن جو طریقہ ا ختیار کیا گیا ہے وہ غلط ہے ، ہمارا اسلام آباد کا دفتر سیل کردیا گیا ہے کمپیوٹر ا ٹھا لئے گئے ہیں او ر پورے ملک میں ایگزیکٹ کے خلاف ایک خوف TERRORکریٹ کر دیا گیا ہے۔

Axact

Axact

آپ سوچیں ایگزیکٹ کے ملازمیں اور فی ان کی فیملیز کا کیا حال ہو رہا ہو گا ، وہ کسی سے بات نہیں کر سکتے ، ان کے بچے سکول نہیں جاسکتے نیو یارک ٹائمز کی جانب سے ایگزیکٹ پر جو سب سے زیادہ سنگین الزام لگایا گیا ہے وہ آن لائن جعلی ڈگریاں بیچنے کا ہے ، ان ڈگریوں میں عام کورسز سے لیکر ڈاکٹر و انجینئر کی ڈگریاں شامل ہیں ، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہماری حکومت ی اور ایف آئی اے سب سے پہلے یہ معلوم کرتی کہ آن لائن ایجوکیشن اور اس کے نتیجے مین ڈگری جاری کرنے کا بین الاقوامی قانون کیا ہے ؟ دوسری اہم بات یہ کہ کیا کوئی ایسی ڈگری کسی ادارے یا ملک سے برآمد ہوئی ہے جس پر ایگزیکٹ کا نام لکھا ہے ؟ پاکستان کے پرائیویٹ بزنس سیکٹر میں ریپوٹیشن اور شاندار نیٹ ورک کے اعتبار سے موازنہ کیا جائے تو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایگزیکٹ جیسے کامیاب ادارے کی مثال نہیں ملتی۔ تاہم یہاں سوال یہ ہے کہ ایگزیکٹ جو تعلیمی نظام چلا رہا ہے

کیا وہ نظام قانونی ہے یا جعلی، نیو یارک ٹائمز کے الزام کے مطابق جو تین سو ستر سکول کالج اور یونیورسٹیز ایگزیکٹ کے کلاینٹس یا ا یسوسی ایٹس ہیں کیا حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں اور یہ تمام تعلیمی ادارے ایگزیکٹ ہی کے ما تحت اور ان ہی کی ملکیت ہیں؟جعلی ڈگریوں اور آن لائن ایجوکیشن پر ایگزیکٹ کے مالک شعیب شیخ کا کہنا ہے کہ ْ ْ ْ ایگزیکٹ کا ا صلی یا نقلی ڈگریوں کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں، ایگزیکٹ آن لائن کورسز کے سافٹ وئیر مختلف اداروں کو فراہم کرتا ہے یہ ادارے دنیا بھر میں پھیلے ہو ئے ہیں ، اس سلسلے میں ہم بیک آفس سروسز بھی فراہم کرتے ہیں، جن اداروں کو ہم اپنی سروس آفر کرتے ہیں وہ ادارے کسی دوسرے بڑے ادارے یا سکول و کالج سے ا لحا ق شدہ ہ ہوں یا نہ ہوں ، قانونی طور پر رجسٹرد ضرور ہوتے ہی ، ایگزیکٹ اسی بات کا خیال رکھتے ہوئے اپنے رجسٹرڈ ایسوسی ایٹس کو سروس فراہم کر تاہے ، کسی ادارے کا الحاق چیک کرنا ہمارا کام نہیں ، امریکہ کی مچال لے لیں امریکہ جیسے ملک میں الحاق شدہ ہونا کوئی ایشو نہیں ، اب وہ سکول یا کالج جو ہمارے کلائنٹ ہیں اگر کوئی غلط کام کرے تو اس میں ایگزیکٹ کو زمہ دار نہین ٹھرایا جا سکتا ، اگر کوئی سکول یا کالج ایسی ڈگری جاری کرتا ہے تو ان سے جا کر پوچھیں کہ آپ مجاز ہیں یا نہیں ، ہمیں قصور وار قرار نہ دیں۔

ایگزیکٹ کا ایشو منظر عام پر آتے ہی ایگزیکٹ کے چھ افسران ایف آئی اے راولپنڈی کے دفتر پہنچے اور اپنے بیانات ریکارڈ کروائے ، انھیں ایف آئی نے طلب کیا تھا ۔ اسی دران ایگزیکٹ کے مالک شعیب ا حمد شیخ کو بھی ایف آئی نے طلب کیا تھا لیکن وہ تا حال ایف آئی اے میں پیش نہیں ہوئے ، ایگزیکٹ کے کراچی آفس میں پوچھ گیچھ اور ریکارڈ قبضہ میں لینے کے بعد راولپنڈی میں ایگزیکٹ کے چھ افسران سے بارہ گھنٹے تک پوچھ گیچھ بھی کی گئی ہے ، ایف آئی کی ایک ٹیم کے اہلکار راولپنڈی دفتر سے جو چھ کمپیوٹر رکشے میں رکھ کر لے گئے تھے ان کی ڈی کوڈنگ کی جا رہی ہے۔ حسد کی لعنت میں مبتلا بعض میڈیا مالکان نے ایک بوٹی کھانے کی خاطر پورا بکرا زبح کوشش کی ہے ، بکرا تو شائد زبح ہونے بچ جائے لیکن اس غیر ضروری مہم جوئی سے پاکستان کی پوری دنیا میں جو بدنامی ہوئی ہے اس کا ازالہ ہونے بڑا وقت لگے گا ، آخر ی اطلاعات آنے تک بول ٹی وی کے صدر اور ایڈیٹر انچیف کامران خان سمیت پوری ٹیم کو بول ٹی وی سے مستعفی ہونے کے لئے سماجی طور پر مجبور کیا جارہا ہے اور تمام ممکنہ نفسیاتی حربے استعمال کئے جارہے ہیں ، تاکہ بول کو بند کروا کر ایگزیکٹ کو تنہا کر دیا جائے ۔ ایگزیکٹ کے معاملے پر البتہ ایک حوصلہ افزا بات بھی سامنے آئی ہے اور وہ یہ کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے و ا ضح الفاظ میں کہا ہے کہ ایگزیکٹ کے متعلق تفصیلی اور شفاف تحقیقات ہو ں گی اور اصل حقائق کو منظر عام پر لایا جائے گا۔

Wasim Raza

Wasim Raza

تحریر : وسیم رضا