راستے جدا ٹہرے

  Marriage

Marriage

تحریر : ممتاز ملک. پیرس
ماں اور باپ کی محبت فطری محبت ہوتی ہے وہ اس کو خون کے لوتھڑے ہونے سے لیکر بھرپور جوان ہونے تک پروان چڑھاتے ہیں. اسکی ضروریات اور شوق پورے کرتے ہیں. چڑیا کے بچے کی طرح اسے اڑنا سکھاتے ہیں. لیکن جب وہ اڑنا سیکھ لیتا ہے تو کہاں کہاں کس کس شاخ پر بسیرا کرتا ہے، یا کس ماحول میں جاتا ہے، کس انداز سے فیصلے کرتا ہے، یہ سب اکثر انکے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا . بہن بھائی جن کیساتھ اس کی نسل کا تار فطرت نے جوڑ رکھا ہے . وہ بھی اس کے ساتھ لڑتے جھگڑنے ایک دوسرے سے مفاد حاصل کرتے زندگی کے گول چکر پر آ کر اپنی اپنی پسند کی راہ منتخب کر کے اپنے اپنے خاندان میں گم ہو جاتے ہہں . وہ آپ کو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ ان سے کبھی کبھار رابطے میں آتے ہیں .

نکاح ایک انتہائی خوبصورت رشتہ ،جس کے دو بول ایک عورت اور مرد کو ایسے تعلق میں باندھ دیتے ہی کہ گویا وہ ایک دوسرے کا لباس ہو گئے . دو انسانوں کے دل کے تار ایک دوسے سے خالق نے اس طرح جوڑ دیئے کہ ایک تار کو چھیڑنے پر دوسرا تار خود بخود اسی سر میں بجنے لگتا ہے . دونوں کی خوشی غمی نفع نقصان عزت اور بے عزتی جتنی اس رشتے میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتی ہے شاید وہ کسی بھی دوسرے رشتے میں اس طرح وابستہ دکھائی بہیں دیتی. لیکن کچھ لوگوں کی زندگی میں زندگی کا ساتھی کبھی ایسا مل جائے جو اس کی سوچ اور تصور یا اس کی امید سے نوے ڈگری کے اینگل پر کھڑا نظر آتا ہے . یا جب آپ کو اس کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ آپ کی پشت سے غائب ہی ملتا ہے.

آپ کی خوشی اور غم سے اسے کوی غرض نہیں ہوتی یا آپ کی آنکھ کا آنسو اس کے دل پر نہیں گرتا تو جان لیجیئے کہ دو غلط لوگ ایک مقام پر اکھٹے ہو چکے ہیں . ایسے میں شروع ہوتی ہے روز کی چخ چخ… ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ، شک کر کر کے اس کا خون جلانا،اس کی کامیابیوں سے حسد کرنا ، اس کے ہر کام میں کیڑے نکالنا ، گھریلو تشدد کا شکار ہونا (مرد و عورت دونوں ہی اس کا شکار ہو سکتے ہیں ) ایک.دوسرے کی زندگی سے آرام اور سکون کو تباہ کر دینا ،تحفظ کے احساس سے خالی زندگی، اپنے شریک زندگی کیساتھ دوستی کا فقدان … . یہ سب کچھ انسان کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ کیا اسے اپنی مرضی اور خوشی سے زندگی گزارنے کا کوئی حق نہیں ہے ؟ لیکن ہمارا معاشرہ ہمیں نام نہاد عزت کی دہائی دیکر، کبھی بچوں کا واسطہ دیکر ،کبھی لوگ کیا کہیں گے کا بینڈ بجا کر تاحیات اس ذلت بھری زندگی میں جڑے رہنے پر مجبور کرتے رہتے ہی اور اس فیصلے کو بھی لینے سے روکتے رہتے ہی جس کا حق ہیں ہمارا قانون،اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت بھی دیتی ہے .

ہمارا دین تو عورت کو پورا پورا حق دیتا ہے کہ اسے اپنے شوہر کی اگر شکل بھی پسند نہیں ہے تو اسے چھوڑ سکتی ہے لیکن ہماری عورت کبھی اپنا یہ حق کسی چھوٹی موٹی بات پر استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی . اور جب وہ ایسا سوچ لے تو سمجھ لیں وہ صبر کہ آخری منزل تک آ پہنچی ہے .

شادی پسند نا پسند کا معاملہ ہو تو شادی سے پہلے علم بغاوت بلند بھی کیا جا سکتا ہے لیکن جہاں شادی کے بعد آپ کی زندگی دوذزخ بنا دی جائے تو بھی بڑوں کے طعنے پر عورت یہ سوچ کر اولاد پیدا کر لیتی ہے کہ چلو یہ آدمی اپنے بچے کی محبت میں ہی ٹھیک ہو جائیگا. لیکن پوتڑوں کے بگڑے بھی کبھی ٹھیک ہوئےہیں کیا؟ اور ویسے بھی اولاد تو چند سال میں ویسے ہی بیاہ کر چھوڑ کرچلی جائے گی تب تک بھی اکثر ماں ہی اور کبھی کبھی اکیلا باپ ہی قربانی دیتا ہے . تو کیا یہ ظلم نہیں ہے .کچھ بھی کر لو بعد میں اولاد سے انعام تو یہ ہی ملتا ہے کہ آپ نے ہمارے لیئے کیا ہی کیا ہے؟ انہیں کون بتائے کہ کس نے اپنی جوانی ،اپنی طاقت،اپنے ہنر،اپنی زندگی ،تمہاری خاطر راکھ کر دی .

اور ذرا سی بھی انسانیت اس مرد میں ہے تو اسے عزت سے اپنی زندگی سے رخصت کر دے . ورنہ یہ حق وہ اپنے پاس تو رکھتی ہی ہے. ہمارےمعاشرے میں بچے پہلے عورت کے پاؤں کی بیڑی بن جاتے ہیں اور جوان ہو کر اسی عورت کے گلے کا پھندا. شادی کو عورت کے لیئے تحفظ اور سکون کے رشتے کے بجائے شاید اسے توڑنے اور اذیت دینے کا ایک ذریعہ بنا دیا ہے . جہاں نہ اس کی کوئی ذات باقی رہے، نہ اس کا کوئی ہنر بچے نہ ہی اس کا کوئی شوق سلامت رہنے دیا جائے .اس کی اپنی شخصیت کو مرد اور بچوں کے جوتوں کے نیچے کچل دیا جائے . جبکہ اسے بھی اللہ نے ایک جیتے جاگتے دل دماغ اور کچھ صلاحیتوں کیساتھ اس دنیا میں پیدا کیا ہے .افسوس اسے انسان سمجھبے اور اس کے جذبات کی قدر کرنے والے دنیا میں بہت کم لوگ پائے جاتے ہیں.

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک. پیرس