مغرب کی سیکولر اور لبرل ڈیموکریسی اور عالم اسلام کی جمہوریت

Liberal Democracy

Liberal Democracy

تحریر : ایم پی خان
مغربی کی سیکولر اور لبرل ڈیموکریسی کے ٹھیکہ دار عالم اسلام کی جمہوریت کو بھی اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں ، کیونکہ انکی ڈیموکریسی اورعالم اسلام کی جمہوریت میں تفاوت بڑھ رہی ہے اوریہی تفاوت عالم اسلام میں جمہوریت کو اسلامی سانچے میں ڈھلنے کی طرف قدم ہے۔
ڈیموکریسی، جسکی متبادل اصطلاح ہمارے ہاں ”جمہوریت ” ہے۔جوکہ ایک قسم کی طرزحکمرانی ہے اوراسکی ابتداء کے بارے میں مختلف نظریات موجودہیں۔لفظ ڈیموکریسی دویونانی الفاظ، ڈیموDemoیعنی لوگ اورکریٹسKratosیعنی حکومت سے مل کربناہے، جس کامطلب ہے لوگوں کی حکومت ۔ڈیموکریسی کی تاریخ خاصی پرانی ہے، تاہم مغرب میں رائج اس نظام کی مختصرتاریخ یہ ہے کہ تیرھویں صدی عیسویں میں انگلستان کاپہلاپارلیمینٹ جوکہ باقاعدہ انتخابات کے بعدوجودمیں آیاتھا، اصل میں ڈیموکریسی کاآغاز سمجھا جاتاہے۔

تاہم موجودہ سیکولر اورلبرل ڈیموکریسی کاآغازیورپ میں نشاة ثانیہ اوراصلاح کے نام پر تحریک کے بعدہوا۔سولوھویں صدی عیسوی میں مارٹن لوتھر Martin Lutherنامی جرمن راہب اورپادری نے مذہب سے بیزاری کاعلم بلندکردیااورعیسائیت کے خلاف اپنے مقالے جرمنی کے شہروٹن برگ کے گرجے کی دیوارپرنصب کردئے۔لوتھرکی اس تحریک کی وجہ سے عیسائیت دوحصوں یعنی پروٹسٹنٹ اورکھیتولک میں تقسیم ہوگئی اوراسکااثر اور ریاست پرگرفت رفتہ رفتہ کم ہوتاگیا۔یہاں تک کہ سن 1688میں انگلش سول وارواقع ہوئی ، جس میں انگلستان کے بادشاہ ہنری کو سولی پرچڑھایاگیااور بادشاہت کاخاتمہ کرکے ڈیموکریٹک ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔

Freedom of Religion

Freedom of Religion

اس ڈیموکریٹک ریاست نے سب سے پہلے مذہب کی آزادی یعنی Freedom of Religion کانظریہ پیش کیا،جسے بعدمیں مذہب سے آزاد یعنی Freedom from Religionکانام دیاگیااوریوں انگلستان کی ڈیموکریٹک ریاست میں کلیسااورسٹیٹ ایک دوسرے سے علیحدہ ہوگئے۔یہاں سے سرمایہ دارانہ نظام کاآغازہوا۔اسکے بعدانقلاب فرانس کے نتیجے میں وہاں ڈیموکریٹک ریاست قائم ہوئی اوریوں اس نظام کاسفرانسویں صدی کے اختتام تک صرف انگلستان ، فرانس اورامریکہ تک محدودتک رہا۔بقیہ دنیامیں اس نظام کوفروغ پہلی جنگ عظیم اورخلافت عثمانیہ ختم ہونے کے بعدہوا۔

مسلم دنیاتک مغربی ڈیموکریسی نے اپناسفرکرتے کرتے موجودہ جمہوریت کی شکل اختیارکرلی، جوکہ اصل ڈیموکریسی سے خاصی مختلف ہے۔ جمہوریت کے لفظی معنی اکثریت کے ہیںیعنی اکثریت کی رائے سے فیصلہ کرنا۔اسلامی تاریخ میں بھی اس قسم کے فیصلوں کی مثالیں موجودہیں ، جس میں مشاورت کے بعداکثریت کی رائے کو ترجیح دی گئی ہے ۔ا س وجہ سے اکثریتی اسلامی دنیامیں رائج جمہوریت مغربی ڈیموکریسی سے مختلف اورالگ شکل میں موجودہے، بالکل اسی طرح ،جس طرح ڈیموکریسی اورجمہوریت کے معنی اورمفہوم ایکدوسرے سے کافی حد تک مختلف ہیں۔اسلامی ممالک میں رائج اس نظام میں بہت سارے اصول اورضابطے اسلامی ہیں، اگرچہ اسکاموازنہ خلافت سے نہیں کیاجاسکتا، تاہم یہ نظام مغرب کے سیکولراورلبرل ڈیموکریٹک نظام سے کافی حد تک مختلف ہے،کیونکہ اسلامی جمہوریت میںمذہب کو ریاست کے امور، آئین اورقانون میں مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔عوام کی اکثریت نیک ، دیانت دار اورمذہبی سوچ رکھنے والے نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں ، جس وجہ سے ریاست میں اسلامی سوچ فروغ پاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مغرب اپنے اثررسوخ، شیطانی میڈیااورباطل قوتوں کے ذریعے اسلامی دنیاکی جمہوریت میں رہی سہی اسلامی اقدارکامکمل خاتمہ چاہتا ہے۔اب جہاں جہاں مغربی معیارکی جمہوریت موجودہے ، وہاں نظام حکومت ہرقسم کے خطرات سے محفوظ ہے۔

Democracy

Democracy

اگر کہیں ایسی جمہویت کے خلاف کوئی سازش ہوتی ہے تو ڈیموکریسی کے ٹھیکہ داراسکوبچانے کے لئے میدان میں اترتے ہیں۔ جمہوریت کی یہ قسم تمام اندرونی اوربیرونی سازشوں اورخطرات سے محفوظ ہوتی ہے ، کیونکہ یہ مغربی ڈیموکریسی کادوسرانام ہے۔اس کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام ، سودی کاروبار، مذہب سے بیزاری ، غریبوں کے استحصال اورسرمایہ داروں کی حوصلہ افزائی پراستوارہوتی ہے۔ایسی جمہوریت میں برائے نام مذہبی طبقہ کی نمائندگی ہوتی ہے لیکن وہ کسی امریافیصلے میں مطلق العنان نہیں ہوتے بلکہ ارباب اختیارکے زیر اثرہوتے ہیں ۔ایسے مذہبی لوگ اورعلماء اپنے ارباب اختیاراورمغرب کے آقائوں کا اعتمادحاصل کرنے اورانعامات واکرامات سے مستفید ہونے کے لئے دین کی غلط تعبیرکرتے ہیں لیکن جہاں کہیں باطل کے خلاف آوازاٹھانے کی نوبت آتی ہے تووہ چھپ سادھ لیتے ہیں۔اس طرح یہ لوگ بھی اس فرسودہ اوراستحصالی نظام کاحصہ ہوتے ہیں۔

اب اسلامی دنیامیں جہاں جہاں جمہوری نظا م نے اسلامی سانچھے میں ڈھلنے کی کوشش کی، جمہوری حکمرانوں نے اللہ کی حاکمیت اعلیٰ تسلیم کرکے ، آئین اورقانون سازی میں قرآن وسنت کی بالادستی قائم کی۔توایسی جمہوریت کے خلاف باطل قوتوں نے شب خون مارا۔ مصرمیں صدرمرسی کی حکومت کاخاتمہ ،سینکڑوں کی تعدادمیں بے گناہ افرادکو موت کے گھاٹ اتارنا اورہزاروں کی تعدادمیں زخمی کرنا ا س سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ترکی میں حالیہ فوجی بغاوت بھی وہاں رائج جمہوری نظام کے خلاف عالمی سازش کاحصہ ہے ، کیونکہ دنیامیں ڈیموکریسی کے ٹھیکہ داریہ بات جانتے ہیں کہ ترکی میں جمہوریت مکمل اسلامی سانچھے میں ڈھل رہی ہے اورشاید اسلام کی اس قدرپذیرائی ترکی میں ایک دفعہ پھر خلافت کاپیش خیمہ ثابت نہ ہوجائے۔سب سے بڑاافسوس ناک امریہ ہے کہ دنیائے اسلام میں اپنے ہی ملک کے بااختیارافرادباطل قوتوں کے آلہ کارہوتے ہیں ، جوانکے اشاروں پر اپنے ملک میں انتشارپیداکرتے ہیں اوراپنی ہی جمہوریت پر مغربی سیکولر اورلبرل ڈیموکریسی کے ٹھیکہ داروں کے اشاروں پر شب خون مارتے ہیں۔یہ توترک عوام کاجذبہ ہے کہ انہوں نے اپنے صدرکے حق میں اپنی جمہوریت کو بچانے کی خاطرہر سازش کاڈٹ کر مقابلہ کیااورباطل کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیواربن کر انکے مذموم عزائم خاک میں ملادئے، کیونکہ ترکی کے غیورعوام کاعقیدہ ہے کہ مذہب ریاست کے تمام امورمیں سب سے مقدم ہے۔یہی اصل جمہوریت ہے اوراسی میں قوموں کی ترقی اورخوشحالی مضمرہے۔

MP Khan

MP Khan

تحریر : ایم پی خان