نوجوان طلحہٰ کا مستقبل تباہ ہونے کا خدشہ

Newspapers

Newspapers

گزشتہ چند روز قبل پیر کے رور 10-09-2013 کو CTO آفس میں ایک واقعہ رونما ہوا۔ جو منگل کے روز کئی اخباروں کی زینت بنا۔ واقعہ میں ہوا کیا کہ طلحہٰ خالد نامی شخص اپنا ڈرائیونگ لائسنس لینے کے لیے ضلع کچہری CTO آفس گیا اور وہاں موجود ایجنٹس مافیہ کا ایک رُکن شہباز سے ملا جس نے پہلے ہی اس کی فائل نکلوائی ہوئی تھی۔ شہباز نامی ایجنٹ نے اس نوجوان کو فائل دے کر ہیڈ کانسٹیبل صدیق کے پاس بھیجا اور ہیڈ کانسٹیبل صدیق نے فائل کو مہریں لگوا دیں۔ اور CTO لاہور سہیل چودھری کے کمرے میں دستخط کروانے چلا گیا۔ اور دستخط کروا کر فائل واپس لا کر نوجوان طلحہٰ کو دے دی۔ اور طلحہٰ کو انسپیکٹر احسن کے پاس فائل مرحلے کے لیے بھیجا گیا۔

انسپکٹر احسن کے پاس جا کر کچھ نیا انکشاف ہوتا ہے۔ کہ فائل میں موجود CTO کے دستخط جعلی ہیں۔ انسپیکٹر احسن فائل CTO لاہور کے پاس اندر لے کر جاتے ہیں اور ان سے دستخط کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ CTOلاہور نوجوان طلحہٰ کو اپنے پاس بلواتے ہیں اور اس کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ لڑکا میرے پاس فائل لے کر نہیں آیا اور نہ ہی میں نے اس کی فائل پر دستخط کیے ہیں۔ اور انسپیکٹر احسن کو اس کے خیلاف جعل سازی کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ قارین طلحہٰ تو واقعی CTO کے پاس نہیں گیا تھا۔ CTO صاحب کے پاس تو ہیڈ کانسٹیبل صدیق گیا تھا۔ جو ایجنٹ مافیہ کے لیے کام کرتا ہے۔ طلحہٰ کے بتانے پر اس کو یہ فائل شہباز ایجنٹ نے صدیق کانسٹیبل سے لے کر دی تھی۔ ہیڈ کانسٹیبل صدیق کو CTO آفس میں سے وقتی طور پر غائب کر دیا گیا۔

Traffic Police

Traffic Police

میرے کچھ دوستوں نے واقعہ کو جانچنے کی کوشش کی اور ہیڈ کانسٹیبل صدیق کے مطلق پتا کیا تو پتا چلا کے وہ کچھ دیر پہلے تین دن کی چھٹی لے کر چلا گیا ہے۔ قارئین سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہید کانسٹیبل صدیق چھٹی پر چلا گیا یا بھیج دیا گیا۔آپ میں سے بہت سے لوگ لاہور میں ٹریفک لائسنس بنوانے کے مرحلے میں سے گزرے ہونگے۔ کوئی بھی شخص جب لائسنس بنوانے جاتا ہے۔ تو وہ اپنا ڈرائیونگ ٹیسٹ دے کر فائل جمع کروا کر آ جاتا ہے۔ اور چند روز کے بعد ضلع کچہری CTO آفس لائسنس لینے کے لیے جاتا ہے۔ اور فائل CTO آفس ضلع کچہری گورمنٹ کے رول کے تحت جاتی ہے۔ تو جعلی دستخط اور مہریں لگوانے میں طلحہٰ کہاں سے شامل ہو گیا؟ کیوں کہ فائل تو ایجنٹ مافیا ہیڈ کانسٹیبل صدیق سے نکلوا کر دی تھی تو طلحہٰ ملزم کیسے بن گیا؟ بلکہ وہ تو ایجنٹ مافیا اور ٹریفک پولیس لاہور کے کچھ کرپٹ افراد کا نشانہ بن گیا۔

اگر جعلی دستخط اور مہر کا استعمال ہوا ہے تو اس میں طلحہٰ تو نہیں لیکن کچھ سرکاری لوگ ضرور شامل ہو سکتے ہیں۔ CTO لاہور سہیل چودھری کوایڈوکیٹ محمد آصف کی جانب سے اس سارے واقع کے مطلق آغاہ کرنے کی بارہا کوشش کی گئی لیکن وہ اپنی ہٹدرمی پر قائم رہے۔ بلکہ CTO آفس کے کچھ لوگوں نے میڈیا کے نمائندوں کو غلط آغا کر کے ایک جھوٹی خبر لگوا دی۔ خبر کی ہیڈنگ کچھ اس طرح تھی سہیل چودھری کے جعلی دستخط کرنے والا ملزم طلحہٰ گرفتار میں CTO سہیل چودھری سے کچھ گزارش کروں گا جناب اگر طلحہٰ ملزم ہے تو آپ کے ڈیپارٹمنٹ میں بھی کچھ کالی بھیڑیں ہونگی۔ جناب آپ نے یہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی کہ نوجوان طلحہٰ کو ایک سرکاری فائل کس نے دی؟ جناب آپ کو جب ہیڈ کانسٹیبل صدیق کے بارے میں بتایا گیا۔

آپ نے اس کے خیلاف انکواری کیوں نہیں لگوائی معزز سہیل چودھری صاحب آپ نے ایک شریف نوجوان کو ملزم تو بنا دیا لیکن آپ کے ارد گرد موجود ایجنٹ مافیا اور آپ کے ڈیپارٹمنٹ کے کچھ لوگ اتنے مضبوط ہیں کہ آپ ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں اور آپ نے ان میں سے کسی کے خیلاف کوئی
ایکشن نہیں لیا۔ CTO صاحب آپ نے ایک شریف شہری کی آنکھوں سے تھانے اور جیل کا خوف ختم کر دیا کیوں کہ آپ نے ایک بے گناہ کو تھانے اور جیل کی ہوا لگوا دی۔ حیرت اس بات کی ہے کہ طلحہ پر تین دفعات لگا دی گئی۔ 419، 420، 476۔ اور اگر طلحہ ملزم تھا بھی تو قانونی ماہرین کے مطابق اس پر 420 کے علاوہ کوئی اور دفعہ نہیں لگ سکتی تھی۔ میں انتہائی افسوس کے ساتھ کہوں گا کہ CTOلاہور نے بغیر انکواری کے ایک سٹوڈنٹ کو ملزم بنا کر اسے جیل کی ہوا لگائی۔ اور اس کے پورے خاندان جنہوں نے کبھی جیل کا نام بھی نا سوچا ہو گا۔ ان کی نیندیں حرام کر دیں۔ اور ان کو عدالت جانے پر مجبور کر دیا۔ CTO لاہور سہیل چودھری اگر طلحہ, کو ایجنٹ مافیا سے لائسنس بنوانے میں مدد لینے کی سزا دینا ہی چاہتے تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایجنٹ مافیا کے خیلاف بھی ایکشن لیتے اور ٹریفک ڈیپارٹمنٹ میں موجود جو لوگ ایجنٹ مافیا کے لیے کام کرتے ہیں ان کو نوکری سے خارج کرتے۔ تاکہ میرٹ سامنے آتا۔ لہذا معزز عدالت نے طلحہٰ کو بروز بدھ زمانت پر ریحا کر دیا ہے۔ لیکن پتا نہیں ہمارے ہاں کتنے لوگ ہمارے سینئیر آفیسر ز کی آرڈر کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ اور طلحہ کی طرح کب تک کتنے نوجوان طالب علموں کا مستقبل تباہ ہوتا رہے گا۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں مجرم بنانے میں پولیس اہم کردار ادا کر تی ہے۔ یہ طلحہ کے واقع کو دیکھ کر سچ ثابت ہو رہاہے۔ اس کے خیلاف تین دفات کے تحت مقدمہ درج ہونا اور اس کے بعد تھانہ پھر جیل کا منہ دیکھنا۔ میری میڈیا کے دوست رپوٹرز سے گزارش ہے کہ خبر ملتے ہی اس کی تحقیقات ضرور کریں اور اس کو آگے شائع ہونے کے لیے ارصال کریں۔ تاکہ ہماری قوم طلحہٰ جیسے کسی بے گناہ کو گنا گار نا سمجھے۔ طلحہٰ کے والدین کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب سے اپیل ہے کہ طلحہٰ کے واقعہ کی تحقیق کروا کر اس کا مقدمہ خارج کیا جائے اور اس کے مستقبل کو دائو پر لگنے سے بچایا جائے۔

Abdalroaf Cuhan

Abdalroaf Cuhan

تحریر : عبدالروف چوھان