زرداری کے ہوتے ہوئے نئے حکمرانوں کا امتحان

Elections

Elections

گیارہ مئی 2013کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے برطانوی میڈیاکا یہ کہناہے کہ پاکستان میں عام انتخابات میں انتخابی مہم پر خرچ کی جانے والی رقم سے 35ہزار اسکول بنائے جاسکتے تھے برطانوی میڈیاکا کہناہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق ایک طرف تو پاکستان میںاسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے لحاظ سے یہ دنیاکا دوسرابڑاملک بن چکاہے اور انتخابی اشتہارات پر اتناپیسہ خرچ کیاگیاہے کہ جن سے 35ہزاراسکول بنائے جاسکتے تھے۔

اَب پاکستانی قوم اندازہ لگائے کہ گیارہ مئی 2013کے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم کے لئے قومی اسمبلی کے جو 4671اُمیدواروںاور اِسی طرح صوبائی اسمبلی کے 10958اُمیدواروںمیں سے ہراُمیدوار کو 15لاکھ روپے خرچ کرنے کی اجازت دی تھی اِس طرح قومی اور صوبائی اسمبلی کے اُمیدوارمجموعی طورپر18ارب روپے خرچ کرنے کے اہل قرارپائے اَب ایسے میں جبکہ انتخابات کا مرحلہ الحمدللہ تکمیل پاچکاہے۔

غیرسرکاری اور حتمی نتائج بھی سامنے آچکے ہیںاتنی بڑی رقم خرچ ہونے کے بعد بھی اگرکسی کو انتخابات کی شفافیت اور الیکشن کمیشن کی غیرجانبداری پر شک ہوتو پھرایسے لوگوں کو قوم کیا کہے گی یہ اختیار میں اپنے پڑھنے والوں پر چھوڑتاہوں۔ اِس صُورت حال میں، میں یہ سمجھتاہوں کہ اَب بھلے سے کوئی انتخابی نتائج کو اپنی نگاہ سے مشکوک بنانے کے لئے وائٹ پیپر جاری کرے یا کوئی گیارہ مئی کو ملکی تاریخ میں منعقد ہونے والے انتخابات پر دھاندلی کا ڈھنڈورا اور اپنا سرپیٹتاپھرے ، وہ کم ازکم اِس حقیقت سے تو انکارکر ہی نہیں سکتاہے۔

امریکا، برطانیہ ،بھارت اور بانکی مون سمیت ہمارے کئی عرب دوست ممالک کے رہنماجو گیارہ مئی سے بھی پہلے ہی سے ہمارے اِن انتخابات کی شفافیت اور اِس سے اخذ ہونے والے نتائج پر گہری نظررکھے ہوئے تھے اور آج اُنہوں نے اِن انتخابات میں واضح اکثریت لے جانے والی جماعت پی ایم ایل (ن) کے سربراہ میاں محمدنوازشریف کو آئندہ حکومت بنانے اوراِنہیں اگلے پانچ سالوں کے لئے تیسری باروزارت عظمیٰ کے لئے نامزد کئے جانے پر مبارک بادیاں دے دیئں ہیں۔

جو اِس جانب واضح اشارہ ہے کہ عالمی سطح پر گیارہ مئی کے انتخابات کو سراہاگیاہے اور اِن انتخابات سے جو نتائج سامنے آئے ہیں اِنہیں بھی پاکستان ایک مستحکم اور پائیدار حکومت کی تشکیل کے لئے خوش آئندہ قراردیاجارہاہے یوں میرے نزدیک جب عالمی سطح پر گیارہ مئی 2013کے عام انتخابات کو صاف وشفاف قراردے دیاگیاہے اور اِس کے نتائج کوبھی درست سمجھاجارہاہے تو پھر کوئی بات نہیںہے..؟کہ بھلے سے کچھ حلقوں سے ہارنے والے انتخابات کو مشکوک بنانے کے لئے اپنے اپنے اعتراضات پیش کریں تو کرتے رہیںکیوں کہ یہ سب ہی جانتے ہیں۔

صرف ہمارے ہی یہاں نہیںبلکہ ساری دنیا میںبھی ہارنے والے ایساہی کیا کرتے ہیں جیساآج ہارنے والے ہمارے یہاں کررہے ہیں۔ بہرحال..!آج جس بات نے مجھے اپنا یہ کالم لکھنے پر متحرک کیا وہ بات یہ تھی کہ جس روزگیارہ مئی کو انتخابات ہورہے تھے اُس روز میں کراچی کے ایک علاقے اورنگی ٹاؤن کی ایک سڑک سے گزررہاتھاتو اِس وقت کئی بزرگوں کا ایک ٹولہ(جوغالباََووٹ کاسٹ کرکے جارہاتھا)میرے قریب آیااور مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔

پہلے تو میں سمجھ نہیں سکاکہ یہ کون لوگ ہیںمگر اگلے ہی لمحے میری پریشانی کو بھانپتے ہوئے ایک دانابزرگ نے لب کُشائی کی اورمجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے ”کھبرائے نہیں ہم وہ نہیں ہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں…مگرہمیں یقین ہے کہ آپ وہ ہیں جو ہم آپ کو سمجھ رہے ہیں یعنی کیاآپ میڈیاپرسن ہیں..؟میں نے جواب دیا ”جی فرمائیے ”تواُنہوں نے سوالیہ انداز سے مجھ سے پوچھاکہ ”اے مسٹر سُنیئے ..! کیاآپ یہ بتاسکتے ہیںکہ زرداری ابھی صدرِ مملکت رہیں گے

Zardari

Zardari

اگریہ صدر رہیں گے تو پھر اِس سے پہلے کہ یہ مزیدکچھ کہتے میںاِن کے تذذب سے اِن کی ہر بات اور اِن کے ذہن میں پیداہونے والے آئندہ کے خدشات کو سمجھ گیااور میں نے مختصراََجواب دیاکہ ”جی ہاں زرداری ابھی صدرِمملکت رہیںگے” اور میرے خاموش ہوتے ہی اِن میں سے ایک دوسرے بزرگ نے اپناجملہ مکمل کیا…”تواِس کا مطلب یہ ہواکہ کیا نئے حکمرانوں کا کڑاامتحان اور قوم کی آزمائشیں پھر شروع ہونے کو ہیں…؟مگراِس سے پہلے کہ میں اِس کی صفائی میںمزیدکچھ کہتااور اِن کے خدشات کو دورکرتا۔

بزرگوں کا یہ ٹولہ اپنے پیر پٹختے ہوئے آگے بڑھ گیااور میں یہ سوچتاہواکہ ” صدر زرداری نے پانچ سالوں میںاپنی مفاد پرستدانہ پالیسیوں اور معنی خیزاپنے مفاہمتی عمل سے اپنا سیاسی قدتو بڑھائے رکھامگراتنے عرصے میں اُنہوں نے عوامی مسائل حل کرنے کی جانب کوئی توجہ نہ دے کرقوم کو اتنامایوس کردیاہے کہ آج قوم اِن کا نام اور اِن کے وجو د کو بھی برداشت کرنے پرآمادہ نہیں ہے” اپنی منزل کی جانب چل پڑا۔

آج جب کہ گیارہ مئی 2013کے مُلک میں ہونے والے عام انتخابات کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج آگئے ہیںاور یہ بھی واضح ہوگیاہے کہ وفاق اور صوبوں میں کس کس کی حکومت بننے جارہی ہے یہ عمل اگلے دوچار روزمیں سرکاری نتائج کے آتے ہی تکمیل کو پہنچ جائے گااورقوم کو لگ پتہ جائے گاکہ مُلک میں وفاق سمیت کس صوبے میں مخلوط تو کہیںون پارٹی حکومتیںتشکیل پانے کو ہیں اور اِسی کے ساتھ ہی قوم کویہ بھی معلوم ہوجائے گا۔

مُلک اُس مثبت تبدیلی کے ساتھ اُس راہ پر گامزن ہوجائے گاجس کے خاطر ساڑھے اٹھارہ کروڑ عوام نے گیارہ مئی2013 کومنعقد ہونے والے عام انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیاتھا۔یہاں یہ امرقابلِ ستائش ہے کہ پاکستانی قوم نے گیارہ مئی کے عام انتخابات کے روز دہشت گردوںکی جانب سے دی جانے والی خطرناک دھمکیوںاوراِن کے آگ و خون کے کھیلے جانے والے کھیل کی پراہ کئے بغیراپنے بہترمستقبل کے خاطربڑی تعداد میں گھروں سے نکل کراپناحق اداکیا۔

Inflation

Inflation

اپنی سمجھ اور نیک جذبوں کے ساتھ ایک ایسی قیادت کو چن لیاہے جومُلک کو توانائی بجلی و گیس کے بحرانوں سے نکالنے سمیت مہنگائی، دہشت گردی اور دیگرمسائل کے حل کی جانب بھی توجہ دے گی،اَب اِس حوالے سے نگراں حکومت پربھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی کا آلہء کار بنے بغیراورکسی ھیل حجت اور چون وچراکئے نومنتخب قیادت کواقتدارمنتقل کردے گی اور اِس کے بعدوفاق میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باعث پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی بھی اولین ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ یہ اپنے مینڈیٹ کا خاص خیال رکھے ۔

اپنے انتخابی جلسوں، جلوسوں، ریلیوں اور میڈیاپر جاری بیانات کے مطابق عوام سے کئے گئے وعدوں اور ایجنڈوں پر فوری عمل کرکے دکھائے اور مُلک کو بجلی اور گیس کی صُورت میں درپیش مسائل کے فوری حل اور بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ جیسے مسئلے کو کم کرنے سمیت ملکی معیشت کو سہرادینے کے ساتھ ساتھ کے ترجیحی بنیادوں پر ایسے اقدامات کرے کے اُس سے یہ معلوم ہو کہ نومنتخب حکومت نے عوامی شعور اور بالغ نظری کو تقویت بخشنے کا سامان کیاہے جس کی بنیاد پر عوام نے اِسے پی پی پی سے اقتدارچھین کر تیسری بارمسندِ اقتدار پربیٹھایاہے اور اگریہ بھی اپنے پیش روکے نقشِ قدم پر چلیں گے۔

تو پھر اگلے انتخابات میں اِن کا بھی قوم وہی حشرکرے گی جیساآج سابقہ حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کا کردیاہے سو اپنے اِس عبرت ناک انجام سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ پی ایم ایل (ن)کو ایساکچھ اچھا کرناہوگاکہ قوم اگلے انتخابات میں اِسے پھر اقتدارکی سیج پر بیٹھادے۔

تحریر : محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com