تحریک انصاف کے لیے خطرے کی گھنٹی

Elections

Elections

تحریر : عبدالرزاق
صوبہ پنجاب اور سندھ میں دس سال کے صبر آزما عرصہ کے بعد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ بلدیاتی انتخابات کا میلہ سجنے میں اس قدر تاخیر کیوں ہوئی سیاست کی راہداریوں سے واقف معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی بخوبی آگاہ ہے۔ بلدیاتی الیکشن کے انعقاد میں طویل وقفہ کسی بھی جمہوری ملک کے لیے قابل تعریف بات نہیں ہے۔ اور بھلا ہو فعال،متحرک اور مستعد عدلیہ کا جس نے عوام کے دیرینہ مطالبے کو درخور اعتنا جانتے ہوے ایک حکم نامہ جاری کیاجس کی روشنی میں صوبائی حکومتیں بادل نخواستہ الیکشن کے انعقاد پر تیار ہوئیں اور بالآخر بلدیاتی انتخابات کا میلہ سج گیا۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا تسلسل کسی بھی ملک کے ادار وں کی مضبوطی کا ضامن ہے۔جمہوریت کے حقیقی ثمرات اسی وقت عملی صورت میں عوام کے سامنے جلوہ نما ہو سکتے ہیں جب اقتدار نچلی سطح تک منتقل ہو اور اختیارات کا دائرہ کار وسیع ہو کر اس کی رسائی مرکز سے یونین کونسل تک ہو۔ترقی یافتہ ممالک جن کی خوشحالی کی مثالیں ہم موقع بہ موقع دیتے رہتے ہیں وہ ممالک اپنے بلدیاتی نظام کی مضبوطی کے بل بوتے پر مستحکم ہیں جن میں بالخصوص امریکہ سر فہرست ہے۔

پاکستان جس میں بلدیاتی انتخابات کی گہما گہمی کو دیکھنے کے لیے عوام دس سال تک سراپا انتظار رہی جبکہ یہ تاخیر اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ پاکستان مروجہ جمہوری روایات سے کماحقہ فیض یاب نہیں ہے اور وہ سیاسی جماعتیں جو قدم قدم پر جمہوریت کے گیت گاتی ہیں اور جمہور کو جمہوریت کے فوائد اور آمریت کی قباحتیں گنوانے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں در حقیقت اپنی قوت کو تقسیم ہوتے ہوے قطعی برداشت نہیں کرتیں اور جب تک اور جس قدر ممکن ہو سکے اقتدار کا محور مرکزی و صوبائی حکومت تک محدود رکھنے کی خواہاں دکھائی دیتی ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ اگر حکمران ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر خلوص نیت اور صدق دل سے عوامی خدمت کے لیے کمربستہ ہوں تو بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ان کی ترجیح اول ہو۔سیاست کے میدان سے آشنا سیاسی بصیرت کے حامل تجزیہ نگاروں کی رائے میں اگر پاکستان میں بلدیاتی انتخابات کا عمل مسلسل جاری رہتا تو پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی جو تصویر اب ہماری آنکھوں کے سامنے رقص کناں ہے اس سے بالکل برعکس نقشہ ہماری نگاہوں کا محور ہوتا۔

Voting

Voting

خیر دیر آئید درست آئید کے مصداق پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا بگل بج ہی گیا۔پنجاب کے بارہ اور سندھ کے آٹھ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ نون تمام ہی سیاسی جماعتوں کو پچھاڑتے ہوے واضح اکثریت حاصل کر کے سرخرو ہو گئی جبکہ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کا تیر نشانے پر بیٹھ گیا اور دوسری سیاسی جماعتیں اس کے سامنے ڈھیر ہو گئیں اور پیپلز پارٹی نے نمایاں برتری سے میدان مار لیا۔

اب دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حالیہ کارکردگی کو دیکھتے ہوے کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔ اور اس صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوے سربراہ تحریک انصاف عمران خان نے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ہونے والی سبق آموز شکست کو دیکھتے ہوے ذمہ دار رہنماوں سے رپورٹ طلب کر لی ہے جبکہ ضلع لاہور کے آرگنائزر شفقت محمود پہلے ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکے ہیں اور انہوں نے موقف اختیا کیا کہ پارٹی کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اس عہدے کے قابل نہیں سمجھتے یوں ان کی شخصیت کے اس مثبت اخلاقی پہلو کو قابل تعریف قرار دیا جا سکتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کچھ عرصہ قبل ہی تحریک انصاف صوبہ کے پی کے میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر چکی ہے اور لاہور میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں ن لیگ بمشکل تحریک انصاف کو شکست سے دوچار کرنے میں کامیاب ہوئی پھر وہ کیا عوامل تھے جن کے رونما ہونے سے تحریک انصاف روبہ زوال ہوئی۔

PTI

PTI

ان انتخابات میں عوامی توقعات کے بر عکس تحریک انصاف کی کارکردگی مایوس کن رہی۔غور طلب پہلو یہ ہے کہ تحریک انصاف دو ہزار گیارہ میں مینار پاکستان کے سبزہ زار میں تاریخ ساز عوامی اجتماع کو ووٹوں کی صورت کیش کروانے میں ناکام ہو گئی اور اس کی بنیادی وجہ اہم مواقعوں پرتحریک انصاف کی سیاسی غلطیاں اور اپنے موقف سے گاہے بگاہے یو ٹرن کی پالیسی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ نوجوان کی پہچان اور تبدیلی کا نشان اس جماعت میں بڑی تیزی سے موقع پرست اور روائتی سیاستدانوں کی آمد نے تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ کو بے حد متاثر کیااور ان سیاستدانوں کی تحریک انصاف میں جوق در جوق شمولیت تبدیلی کے خواہاں نظریاتی کارکنان کے لیے مایوسی کا باعث بنی ا ور آہستہ آہستہ نظریاتی کارکنان تحریک انصاف سے دوری اختیار کرنے لگے اور اب حالیہ منعقدہ بلدیاتی انتخابات تحریک انصاف کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور ایک آئینہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس آئینہ میں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو دیکھ کر تحریک انصاف اک نئی حکمت عملی اور عزم نو کے سہارے اپنی تنظیمی صلاحیت کو بہتر کر سکتی ہے اور قومی الیکش دو ہزار اٹھارہ سے قبل اپنی تحریک کی روح میں نئی جان ڈال سکتی ہے۔

بالخصوص زوال پذیر جماعت پیپلز پارٹی کے دیمک زدہ درخت کی شاخوں سے اڑ کر آنے والے مفادی پنچھیوں کو قبول کرنے سے احتراز برتنا چاہیے اور اس ضمن میں اشرف سوہنا کی مثال دی جا سکتی ہے وگرنہ تحریک انصاف کی تبدیلی کا نعرہ بھی روٹی ،کپڑا اور مکان کے نعرے کی طرح بکھر جائے گا اور تحریک انصاف بھی پاکستان کی سیاسی کتاب میں اک بھولی بسری یاد بن کر رہ جائے گی اور تبدیلی کا خواب آنکھوں میں سجائے اس جماعت کا متحرک نوجوان کارکن مایوسی کی دلدل میں دھنس کر سیاسی ماحول سے بد دل ہو جائیگا۔

Abdul Razzaq

Abdul Razzaq

تحریر : عبدالرزاق