کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم

Sindh Apex Meeting

Sindh Apex Meeting

تحریر : محمد اشفاق راجا
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ روز کراچی کے کور ہیڈ کوارٹرز میں اعلیٰ سطح کے اجلاس، قبل ازیں سندھ رینجرز ہیڈ کوارٹرز میں ایک میٹنگ اور پھر رینجرز ہیڈ کوارٹرز میں جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا، کراچی آپریشن پیچھے نہیں آگے بڑھے گا۔ آپریشن کو بغیر رکاوٹ جاری رکھا اور اس کے ثمرات کو کسی صورت ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے کراچی کے عوام کو یقین دلایا کہ دہشت گردوں اور ان کے مددگاروں کا گٹھ جوڑ ہر قیمت پر توڑا جائے گا۔ جنرل راحیل شریف نے بتایا کہ شہر کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے لئے جوانوں کے عزم، حوصلے اور ثابت قدمی کی وجہ سے اہالیان کراچی کی نظر میں سندھ رینجرز کی عزت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔

آرمی چیف کا یہ عزم اس لحاظ سے بھی خوش آئند ہے کہ حالیہ دنوں میں، جرائم پیشہ جتھوں اور مافیاز نے پرپرزے نکالنا شروع کر دیئے تھے۔ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے صاحبزادے بیرسٹر اویس علی شاہ کے اغوا اور امجد قوال کے قتل سے یہ تاثر ابھرا تھا کہ آپریشن کی گرفت مضبوط نہیں رہی؛ تاہم آرمی چیف کے کراچی آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کے واضح اعلان کے بعد اب یہ تاثر ختم ہو جانا چاہئے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ آپریشن کو درمیان میں چھوڑ دیا جائے اور وہ ساری کامیابیاں جو حاصل ہوئی ہیں، رائگاں چلی جائیں۔ آپریشن کے نتیجے میں کراچی کی ساری رونقیں لوٹ آئی تھیں، کاروبار کھل گئے تھے اور پہلی بار پچھلی عید پر کراچی میں جشن کا سامان تھا۔

حالیہ واقعات، ٹارگٹ کلنگ اوربھتہ خوری کی وارداتوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپریشن میں کچھ خامیاں رہ گئیں۔ کچھ خامیاں سول اداروں کی طرف سے اور کچھ کوتاہیاں رینجرز سے بھی ہوئی ہوں گی۔ حالیہ واقعات کا تقاضا یہ ہے کہ آپریشن کو پوری قوت سے جاری رکھا جائے ؛ تاہم آپریشن کو طول نہ دیا جائے، بلکہ وسعت دی جائے۔ آپریشن جتنا لمبا ہوگا، افادیت کم ہوتی جائے گی۔ اس لئے جس قدر جلد ممکن ہو، آپریشن مکمل کرکے امن و امان کی ذمہ داریاں سول اداروںکے سپرد کر دی جائیں، چونکہ، امن و امان کی ذمہ داریاں پولیس کو سنبھالنا ہوں گی۔ اس لئے، پولیس کی تطہیر ضروری ہے۔

Rangers

Rangers

اعلیٰ عہدے اہل لوگوں کے سپرد کیے جائیں، اوپر سے نیچے تک تمام بھرتیاں میرٹ پر کی جائیں۔ بھرتی کرتے وقت صرف یہی نہ دیکھا جائے کہ امیدوار کا قد کتنا لمبا اور سینہ کتنا چوڑا ہے؛ بلکہ ان کی اخلاقی حالت پر بھرپور توجہ دی جائے۔ اس کے لیے، انہیں ٹریننگ کے اداروں میں اس موضوع پر باقاعدہ تربیت دی جائے۔ جب تک پولیس مستعد اور اہل نہیں ہوگی۔ رینجرز کی جگہ نہیں لے سکے گی۔ پیشتر اس کے کہ رینجرز واپس جائیں، پولیس کو ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل بنادیا جائے۔ کراچی میں بے چینی اور بدامنی پیدا کرنے میں شہریوں کے مسائل بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مسائل کی وجہ سے پیدا بے چینی اور بدامنی کو، جرائم پیشہ لوگ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سندھ کی صوبائی حکومت اور شہر کی انتظامیہ کو کراچی کے شہریوں کے مسائل کے حل کی طرف بھرپور توجہ دینا ہوگی۔ پانی کا مسئلہ کئی برسوں سے حل طلب ہے۔ حیرت ہے، سمندر کے کنارے واقع شہر کو پانی کا مسئلہ درپیش ہے۔

دنیاکے کئی بڑے بڑے شہر سمندر کے کنارے واقع ہیں لیکن پانی کی ایسی قلت کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنانے کے پلانٹ لگائے جائیں۔اس کے علاوہ جھیل منچھر اوردیگر آبی ذخائر سے گنجائش کے مطابق استفادہ کیا جاسکتا ہے، بہت کچھ ہوسکتا ہے؛ بشرطیکہ کرنے کا عزم ہو، منصوبہ بندی سے کام کیا جائے، تو شہریوں کا یہ دیرینہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اسی طرح کراچی کو بجلی کی سپلائی کا مسئلہ بھی اضطراب اور احتجاج کا سبب بنتا ہے۔ یوں توسارے ملک کو، بجلی کی قلت درپیش ہے، اور حکومتی اعلانات کے مطابق 2018ء تک یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا لیکن کراچی میں قدرتی ذرائع، سورج اور ہوا کو استعمال کرکے، وافر بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔

بہرحال شہری زندگی سے متعلق دیگر تمام چھوٹے بڑے مسائل رینجرز نہیں سول ادارے ہی حل کرسکتے ہیں۔ کراچی کے حالات کو بگاڑنا، ایک بین الاقوامی ایجنڈا بھی ہے۔ بھارتی ”را” کی کراچی اور بلوچستان میں سرگرمیاں ظاہر ہو چکی ہیں۔ لیکن کچھ ہماری بھی خامیاں ہیں کہ آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہو رہا تھا، کہ پھر، وارداتیں ہونے لگیں۔ بہرکیف اگر ہم اپنی خامیوں پر قابو پالیں، اور کراچی کے شہریوں کے مسائل حل کرلیں، تو آپریشن بہت جلد منطقی انجام تک پہنچ جائے گا۔

Muhammad Ashfaq Raja

Muhammad Ashfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا