دعائے سیدہ رحمت اللہ علیہ

Dua Syeda

Dua Syeda

تحریر: پروفیسر محمد صغیر
حضرت پیر سید مہر علی شاہ بخاری رحمت اللہ علیہ کی والدہ گرامی، حضرت مائی صاحبہ، سیدہ رسول بی بی رحمت اللہ علیہ بلند پایہ ولیہ خاتون تھیں۔ آپ رحمت اللہ علیہ حضرت فضل احمد پشاور ی رحمت اللہ علیہ کے خلیفہء طریقت ، غوث زماں حضرت پیر سید سید ن علی شاہ بخاری رحمت اللہ علیہ ، تاجدار بادشاہ پور شریف تھصیل ملکوال، کے عقد میں دینے سے قبل آپ رحمت اللہ علیہ کے والد بزر گوار پیر جھلیشاہ سرکار رحمت اللہ علیہ نے بنی نوع انسان کے علاوہ جنات اور دیگر مخلوق خدا کو بھی مشرف بہ اسلام کیا تھا اور یہ مخلوقات آپ رحمت اللہ علیہ کے حلقہ ارادت و طریقت میں داخل تھیں۔ حضرت مائی صاحبہ رحمت اللہ علیہ کو آپ رحمت اللہ علیہ کے والد بزرگوارنے ڈھائی سوپکھی جنات کی جہیز میں دی تھی جو آپ رحمت اللہ علیہ کی خدمت پر مامور رہی۔

سیدنا پیر فاروق شاہ سرکار رحمت اللہ علیہ، اپنی والدہ کی کمی مہسوس کرتے ہوئے انتہائی فرما نبرداری سے آپ رحمت اللہ علیہ کی خدمت بخالاتے۔ مائی صاحبہ رحمت اللہ علیہ انتہائی عمر رسیدہ ہو چکی تھیں۔ پیر صاحب رحمت اللہ علیہ اپنے دست مبارک سے آپ رحمت اللہ علیہ کو کھانا کھلاتے، پانی پلاتے اور آپ رحمت اللہ علیہ کا ہر ممکن خیال رکھتے تھے۔ حضرت مائی صاحبہ، رحمت اللہ علیہ آپ رحمت اللہ علیہ سے بیہد خوش تھیں اور دل سے آپ رحمت اللہ علیہ کو دعائیں دیتی تیھں۔ اسطرح آپ رحمت اللہ علیہ ان ولیہ اللہ سیدہ کی خصوصی دعائوں کے سائے میں جوان ہوئے اور سر بلندی و سرفراز حاصل کی۔

مایہ نازایتھلیٹ : حضرت اعلی رحمت اللہ علیہ، بر صغیر کے مایہ نازایتھلیٹ تھے اور نوجوانی ہی میں آپ رحمت اللہ علیہ کا ڈنکا بجنے لگا تھا۔ دوردراز مقابلوں کیلئے بلائے جاتے۔ آپ رحمت اللہ علیہ والی بال کے ناقابل زکست کھلاڑی تھے۔ جس ٹیم میں ہوتے یقینی فتح حاصل کرتی۔ آپ رحمت اللہ علیہ کے اعزازات اور انعامات کی فہرست طویل ہے۔

شہسوار : آپ رحمت اللہ علیہ چست اور چھریرے بدن کے مالک تھے اور سیماب صفت ہرکات و سکنات رکھتے تھے۔ گوڑسواری اور نیزہ بازی مرغوب تھی۔ آپ رحمت اللہ علیہ کے گھوڑے، متہدہ ہندوستان کی بڑی ریسوں کے فاتح تھے۔

Poetry and Literature

Poetry and Literature

شعروادب : سادات بنی فاطمہ میں شعروادب کی غیر معمولی اہمیت ہے اور اکثر سادات عظام، صاحب دیوان ہیں۔ یہ خاندانی و موروثی خصلت آپ رحمت اللہ علیہ میں بھی بدرجہ اتم موجودتہی اور آپ رحمت اللہ علیہ، شعرو ادب سے لگائو رکھتے تھے۔ پنجابی، اردو، ہندی، اور فارسی کے کئی اشعار ازبر تھے اور اکثر سنایا کرتے۔ آپ رحمت اللہ علیہ کے اشعار کا مہور عشق رسول رحمت اللہ علیہ رہتا۔ بسااوقات خود بھی موزوں فرمایا کرتے تھے۔ آپ رحمت اللہ علیہ کا مجموعہ سخہن ارمغان فاروق ہے۔

حکیم حاذق : دکھتی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنا سادات کا فرض اولین ہے۔ اس خصلت کے تہت آپ رحمت اللہ علیہ نے میدان طبابت میں قدم رکھا اور اپنے رمانہ کے جید طبیب کہلائے۔ آپ رحمت اللہ علیہ، آسمان حکمت کے نیر تاباں تھے اور آپ رحمت اللہ علیہ کا شمار نامور اطباء وھکماء میں ہوتا تھا۔ آپ رحمت اللہ علیہ نے تا عمر سسکتی مخلوق کے درد کا علاج کیا اور فی سبیل اللہ ادویات و نسخہ جات عوام الناس کو عطا کئے۔ آپ رحمت اللہ علیہ کو حکیم الائولیاء کہا جاتا یے۔

ازدواج : نظام عالم میں کفو، انتہائی اہمیت کا حامل ھے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ازدواجی معاملات میں ہمسری و برابری ہی کامرانیوں کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ آپ رحمت اللہ علیہ نے حضرت پیر سید مہر علی شاہ نقوی البخاری رحمت اللہ علیہ کی چھوٹی صاحبزادی، حضرت مائی صاحبہ غلام سکینہ بی بی رحمت اللہ علیہ سے عقد فرمایا جن سے آپ رحمت اللہ علیہ کے دو صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں متولد ہوئیں۔

امیر حزب اللہ کی ارادت : امیر حزب اللہ، پیر فضل شاہ جلالپوری، حضرت اعلی رحمت اللہ علیہ سے حددرجہ ارادت و عقیدت رکھتے تھے اور آپ رحمت اللہ علیہ کی احترام کا خصوصی اہتمام فرماتے۔ سالانہ عرس کی مہفل و تقریبات میں مدعو کرتے اور کئی گھنٹے آپ رحمت اللہ علیہ، کی روھانی نشست سے فیضاب ہوتے تھے۔

Haj

Haj

حج بیت اللہ کی سعادت : حضرت اعلی رحمت اللہ علیہ، تین دفعہ حج نیت اللہ کی سعادت کو تشریف لے گئے اور دو دفعہ عمرہ ادا کیا۔ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری دی اور جنت المعلی و جنت البقیع کے دروازہء بہشت پر سجدہ ریز ہوئے۔ بدرواحد کے شہداء کی زیارت فرمائی۔ غار حرا تشریف لے گئے اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چلہ گاہ و مقام مراقبہ پہ حاضری دی۔

عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : حضرت اعلی رحمت اللہ علیہ، عشق حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لبریز تھے۔ نمناک آنکھیں، فراق مدینہ میں اشکبار رہتیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یسم گرامی سنتے ہی انگوٹھے چومتے اور آنکھوں میں مس فرماتے تھے۔ روضہء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری دیتے وقت زاروقطار روتے اور گریہ زاری فرماتے تھے۔ اکثر نمازیں ریاز ض الہجنہ میں ادا کرتے اور امت مسلمہ کی زبور حالی پر گریہ کرتے اور عالم اسلام کی سربلندی کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔

درود تاج، درود لکھی، صلوة تنجینا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوراد و ظائلف میں سرفہرست رہے۔ بلاناغہ، روزانہ بوقت مغرب، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ختم شریف، کلام مجید، صلوة و سلام اور درود پاک کا نذرانہ پیش فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے متوسلین و مریدین کو بھی عشق رسالت پہ کٹ مرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل بیت اطہار اور اصاب کبارکی سیرت مبارکہ کے اتباع کو فلاح دارین قرار دیتے تھے اور ھمیشہ اس پیرا ہو کر دوسروں کے لئے قابل تقلید مثالیں قائم کرتے رہے۔ اکثر نعت شریف کے اشعار برلب رہتے تھے۔

زیارات مقامات مقدسہ : آپ رحمت اللہ علیہ جون 1996ء معلی، نجف اشرف، کاظمین شریفین حلہ، کوفہ ، مشہد مقدس ، قم، طہران کے مقامات مقدسہ کی زیارت کو تشریف لے گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگرپاروں کے آستانوں پر عقیدت کے پھول نچھاور فرمائے۔ نواسئہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امام عالیمقام، حضرت سید نا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں پہنچے تو آنسوئوں کی برسات کے ساتھ صلوة و سلام کا نذرانہ پیش کیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ شیر خدا کی بارگاہ میں حاضری دی۔ اپنے جدا اعلی سئدنا امام موسی بن جعفرالکاظم رحمت اللہ علیہ کی چوکھٹ پہ سرنیاز خم کیا اور اشکوں کا نذ رانہ پیش کیا۔

Ramzan

Ramzan

جنوری 1997، ماہ رمضان المبارک، ایام لیال القدر میں آپ رحمت اللہ علیہ، بنت علی، شریکتہ الہسین، فاتہ شام، سیدہ رینب بنت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے آستانے پر حاضر ہوئے اور سلام عقید ت پیش کیا۔ دمشق کے مرکزی قبرستان، باب الصغیر میں جلوہ فرما، جگر گوشھائے رسالت ۖ کی بارگاہ میں حاضری دی۔

ام المئومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہ کے روضہء اقد س پہ سلام کیا۔ تمام شھدائے کربلا کر سر اقدس کے جائے مدفن گنج شہداء پہ حاضر ہوئے اور جبین نیاز خم کی۔ آپ رحمت اللہ علیہ صہابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، موذن نبوی، حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ سے خصوصی عقیدت رکھتے تھے۔

ان کی بارگاہ میں سلام پیش کیا۔ انتہائی ضعفیی و مرض کے عالم ان تمام مقامات مقدسہ کے زیارت نہایت جوش و خروش اور ولولہ انگیزی سے فرمائی اور ہر جگہ بلند آواز سے دورد و سلام کے نذرانے کئے۔

نفاست : حضرت اعلی رحمت اللہ علیہ، ظاہری و باطنی، صفائی ستھرائی کا بہت اہتمام کرتے تھے اور ہمیشہ اجلا لباس زیب تن فرماتے۔ اعلی قسم کی خوشبو والے، صرف مدینہ منورہ شریف سے لائے گئے عطر استعمال کیا کرتے تھے۔ کوئے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو کے علاوہ اور کوئی خوشبو نہ لگاتے۔ اکثر باوضورہتے اور پاک صاف رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ مسواک استعمال کرتے اور روغن لگایا کرتے۔

آخری ایام : حضرت اعلی رحمت اللہ علیہ، حیات مبارکہ میں بہت کم مریض ہوئے۔ آخری ایام میں کامل استغرا میں تشریف لے گئے۔ قریبا نصف ماہ، مر ض الموت میں مبتلا رہے۔ شدید تکلیف کے عالم میں بھی صلوة و سلام کاوردمبارک زبان پر رہا۔ آخری روز بار بار، داہنا ہاتھ، پیشانی سے لگاتے اور یا رسول اللہ ۖ ، یاعلی کے الفاظ ادا فرماتے تھے۔ 2 میہرم الہرام 1428ھ بمطابق 22 جنوری 2007 ء بروز پیر، دم آخرلرزتے ہاتھ بلند کئے جیسے کسی کے ہاتھوں میں ہاتھ دے رہے ہوں، تبسم فرمایا، نمناک آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ آخری الفاظ جاری ہوئے۔

تد فین : آپ رحمت اللہ علیہ کو آپ کے آستانہ عالیہ، کندھانوالہ شریف میں آپ کے پوتے اور درگاہ کے سجادہ نشین، حضرت پیر سید علی عباس شاہ سرکار نے ہزاروں سوگواروں کے سجادہ نشین، حضرت پیر سید علی عباس شاہ سرکار نے ہزاروں سو گواروں کے اجتما ع میں اپنے دست مبارک سے سپر دلہد فرمایا۔

مصادر تہقیق :
١۔ امام اہل بیت، سیدنا امام موسی بن جعفر الکاظم رحمت اللہ علیہ، پروفیسر منظور حسین مخدوم
ڈائریکٹر جنرل، کمیونٹی ولیفیئر فاونڈیشن، واشنگٹن ڈی سی،
ریاستہائے متہدہ امریکہ
٢۔ انوارالکاظمین فی تذکرة السیدین
علامہ عطامحمد قادری الغفاری
چئرمین پاکستان علماء کونسل، اسلام آباد۔
٣۔ تاریخ ضلع منڈی بہاوالدین راشد مہمودارقم
٤۔ تذ کرہ اولیائے منڈی بہاوالدین پروفیسر محمد صغیر
٥۔ تہقیقات چشتی محمد چشتی

Professor Muhammad Sagheer

Professor Muhammad Sagheer

تحریر: پروفیسر محمد صغیر