رمضان المبارک

Ramadan

Ramadan

تحریر: کامران ارشد
رمضان المبارک وہ مقدس مہینہ ہے جس کے بارے میں حضور سرور کائنات ۖنے فرمایا ہے کہ یہ عظمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے خدواند کریم یہ سعادت بخشیں کہ صحت کہ عالم میں ہماری زندگی میں یہ مہینہ آئے تو ہم نہایت احترام کے ساتھ اور نہایت التزام کے ساتھ مسلسل روزے رکھیں اور اس مہینے کی مخصو ص برکات سے بہرہ ور ہوں ۔روز ہ جہاں اپنے اندر بہت سی دنیاوی اور جسمانی برکات بھی رکھتاہے وہاں صحت مندی کی حالت ہے ہر مسلمان کے لیے فرض بھی ہے ۔حضور سرور کائنات ۖکا ارشاد مبارک ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔

اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ ایک ہے اور محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور نماز قائم کرنا ،زکواة دینا ،حج بیت اللہ کر نا اور رمضان کے روزے رکھنا ۔گویا رمضان کے روزے رکھنا اسلام کی بنیا د ٹھہر ی اور یوں ہر مسلمان کے لیے بخیثیت مسلما ن روزے رکھنا قطعاًلازم ٹھہرا ۔قرآن حکیم میں بھی جگہ جگہ روزے کی حرمت اور اس کے فرض ہونے کا ذکر ہے ۔اور یہ صراحت بھی کر دی گئی ہے۔کہ مسلمانوں ہی پر روزے فرض نہیں کیے گئے بلکہ پہلی امتوں پر بھی روزے ہوا کرتے تھے۔چنانچہ قرآن حکیم میں آتا ہے۔مسلمانو:تم پر روزے اس طرح فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلی امتوں اور قوموں پر اس سے پہلے فرض کیے گئے تھے۔تاکہ تم میں تقوٰ یٰ پید اہو۔

Roza

Roza

ان الفاط میں قرآن حکیم میں جہاں روزے کے بارے میں یہ تاثر دیا گیا ۔کہ روزے صرف مسلمانون ہی پر کسی خاص بوجھ کی صورت میں نہیں ڈالے گئے وہان روزے کا مقصد بھی واضح کر دیا گیا ہے۔یعنی یہ کہ ہم میں تقویٰ پید ا ہو ۔ہم خداوند قدوس کا خوف محسوس کریں اور پرہیز گاری اختیار کریں ورنہ محض کھانا پینا ترک کر دینا روزے کے مقصد کو پورا نہیں کرتا ۔اس امر کی صراحت رسول ۖنے یوں فرمائی ہے روزہ رکھ کر بھی جو شخص جھوٹ اور لغویات کو نہ چھوڑے تو خدا کو اس کی ضرورت نہیں کہ انسان اپنا کھاناچھوڑ دئے۔

قرآن کریم میں جہاں روزے کے فرض ہونے کا تذکرہ جگہ جگہ کیا گیا ہے وہاں یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ مریض یا مسافر جو بیماری کے سبب یا سفر کی صعوبتوں کی بنیا پر روزہ نہیں رکھ سکتا اس کے لیے رعایت ہے کہ وہ بعد میں رکھ لے خداوند کریم کے الفاظ اسی ضمن میں یہ ہیں ۔ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اُترا جو بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کا زریعہ ہے جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں جو حق و باطل کے درمیان فرق واضح بیان کردیتی ہیں

Worship

Worship

پس جو اس مہینے کو زندگی میں پالے اس چاہیے کہ روزے رکھے اور جو مریض یا مسافر ہو وہ ان کے بدلے دوسرے دنوں میں پھر روزے رکھ لے ۔خدا آسانی چاہتا ہے سختی نہیں چاہتا کہ تم روزے کی تعداد پوری کر سکو اور روزے اس لیے فرض ہو ئے کہ تم اس عطائے ہدایت پر خدا کی بڑائی بیان کرو اور اس کا شکر بجالاو۔چنانچہ ہمیں چاہیے کہ اس رحمتوں اور برکتوں کے مہینے کو اس انداز میں گزاریں جس انداز میں گزارنے کا قرآن کریم میں حکم ہے اور حضور سرور کائنات ۖکا رشاد ہے اور پھر ان برکتوں اور رحمتوں سے بہرہ ور ہوں جن کا وعدہ قرآن کریم میں موجو دہے اور جن کو مزید صراحت رسول کریم نے فرمائی ہے اس مہنے میں ہمیں زیادہ سے زیادہ نیکی کرنی چاہیے ۔اور زیادہ عبادت اور شکر گزاری کرنی چاہیے اور پھر اس مہینے میں ایک خاص رات ہوتی ہے جو ہزار مہینوں کے برابر ہوتی ہے اسے عبادت میں گزار کر ہزاروں راتوں کی عبادت کا ثوات ملتا ہے یہی رات ہے جس کے بارے میں قرآن کریم میں آتا ہے۔

ہم نے قرآن کو عز ت وحرمت والی رات میں نازل کیا اور ہاں نہیں کسی نے بتا یا کہ عزت وحرمت والی رات کیا ہے اور وہ رات جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جس میں ارواح مقدسہ اور فرشتے حکم الہیٰ سے احکام لے کر نازل ہوتے ہیںیہ رات میں طلوع صبح تک سلامتی ہے یہ رات کونسی ہے اس کے بارے میں کسی حد تک اختلاف موجود ہے مگر اس حد تک تما م علمائے کرام کو اتفاق ہے اور احادیٹ سے اس کی تصدیق ہو تی ہے کہ رمضان کی دس کی دس راتیں ہی عبادت میں گزار لی جائیں تو بہت بڑی عبادت ہے ایک حدیت میں یہ بھی آتا ہے کہ رات آخری دس روزہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے تاہم اکثر بزرگان کرام سے روایت ہے کہ یہ رات ستائیسویں رمضان رکی رات ہے بہرحل آخری راتوں میں جس قدر نیکی اور عبادت ممکن ہو کرلینی چاہیے

Kamran Arshad

Kamran Arshad

تحریر: کامران ارشد
نمائندہ راولاکوٹ آزادکشمیر
03328567202