طیب اردوان اور تحریک انصاف

Tayyip Erdogan and Imran khan

Tayyip Erdogan and Imran khan

تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم
ترکی کے صدر طیب اردوان گزشتہ دنوں پاکستان کے دو روزہ دورے پر تھے اپنے اس دورے کے دوران مہمان صدر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کیا ۔ کسی بھی مہمان لیڈر کے لیے یہ اعزاز کی بات ہوتی ہے کہ اگر اسے میزبان ملک کی پارلیمنٹ سے خطاب کا موقع ملے اور اس سے بھی زیادہ عزت کی بات ہوتی ہے کہ اگر اس کا خطاب سننے کے لیے مکمل پارلیمنٹ جس میں سینٹ سمیت اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی تمام جماعتیں موجود ہوں ۔ عمران خان نے باوجود اس کے کہ تحریک انصاف کے بہت سے سینئر لیڈرز اس مشترکہ اجلاس میں شامل ہونا چاہتے تھے انکار کر دیا۔

عمران خان کے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے حوالے سے جو دلائل دیے ہیں وہ بہت کمزور ہیں یہ پارلیمنٹ پاکستان کی پارلیمنٹ ہے ن لیگ کی پارلیمنٹ نہی ہے ۔ دوسرا آپ عوام کے ووٹوں سے اس پارلیمنٹ میں آئے ہیں ن لیگ آپ کو پارلیمنٹ میں نہی لائ ۔ تیسرا جس بنیاد پر آپ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت سے انکار کر رہے ہیں وہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں ہے ۔ فرض کریں کہ عدالت نواز شریف کو بے گناہ قرار دیتی ہے تو پھر عمران خان صاحب کیا کریں گے۔عمران خان نے ترکی حکومت کو بھی شرمندہ کیا ہے اگر یہ ترکی سفارتخانے نہ جاتے تو اچھا ہوتا کم از کم ترکی سفیر کی شرکت کی درخواست تو رد نہ کرنی پڑتی میں یہ سمجھتا ہوں کہ عمران خان ایک اچھا کھلاڑی ہے مگر وہ ایک اچھا سیاستدان ہے اس پر مجھے ہمیشہ شک رہا ہے کیونکہ سیاسی فیصلوں کے لئے جس بردباری ، فہم و فراست کی ضرورت ہے وہ عمران خان میں مجھے بلکل نظر نہی آتی۔

Imran Khan

Imran Khan

وہ ایک سچا انسان ہو سکتا ہے۔ ایک اچھا کھلاڑی ہے مگر سیاسی رموز سے نا واقف ہے۔ مگر بہت خوش قسمت ہے کہ جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہے کامیابی اس کا انتظار کرتی ہے۔ یہ ہی سیاست میں بھی ہوا کہ سیات میں بھی عمران خان کو کامیابی ملی مگر یہ کامیابی اگلے الیکشن تک ان کے ساتھ رہتی ہے یا بے وفائ کرتی ہے یہ تو وقت بتائے گا مگر میرا یہ تجزیہ ہے کہ اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کا قد بڑھنے کے بجائے کم ہو گا۔ اس کی وجہ یہ نہی ہے کہ دوسری سیاسی جماعتیں بہت اچھی ہیں بلکہ اس کی وجہ عمران خان کی معاملہ فہمی سے ناوقفیت اور ان کا تکبر ہے۔ یہ تکبر الطاف حسین کا لے ڈوبا یہ ہی عمران خان کے ساتھ بھی ہوگا۔ سیاست میں سب کچھ معاف کیا جا سکتا ہے مگر اخلاقی پستی عوام کے نظریات میں تبدیلی پیدا کرتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بھی یہ ہی ہوا کہ وہ الیکشن جیتنے کے باوجود بھی اپنے اخلاقی دیوالیہ پن کی وجہ سے امریکا میں اپنے خلاف ہونے والے مظاہرے کو برداشت کر رہا ہے۔عمران خان ملک میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ مگر ان کو سب سے پہلے تبدیلی اپنے ورکرز میں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

شائد ہی پاکستان کی کوئ سیاسی پارٹی ہو جس کے جلسوں اور میٹینگز میں اتنی زیادہ بدتمیزی اور ہنگامہ ہوتا ہو جو کہ تحریک انصاف میں ہوتا ہے۔ ان کو اپنے نوجوانوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہئے جو جلسوں میں اپنی ہی خواتین سے بدتمیزی کرتے ہیں۔ عام ورکرز تو چھوڑیں حال ہی میں تحریک انصاف کے اسٹوڈنٹ وینگ انصاف فیڈریشن کے کنوینشن میں جو طوفان بدتمیزی دیکھنے کو ملی وہ حیران کن ہے کیونکہ ایک تو اس کنوینشن میں تعلیم یافتہ نوجوان تھے۔ دوسرا ان کے اپنے لیڈر سامنے موجود تھے اس کے بعد بھی بد انتظامی اور ہنگامہ آرائ عروج پر تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کو اپنے کارکنان کو تربیت کے لئے جماعت اسلامی یا پھر ایم کیو ایم کے پاس بیجھنا چاہئے۔ عمران خان کو سب سے پہلے اپنی ٹیم کی سوچ اور فکر میں تبدیلی کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اس وقت عمران خان کا طیب اردوان کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ انتہائ غلط اور سیاسی غلطی ثابت ہوگا۔ عمران خان کے اخلاقی اقدار کا مظاہرہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پہلے انہوں نے نجم سیٹھی پر پینتیس پنکچرز کے الزامات لگائے۔

Political Statement

Political Statement

اپنے دھرنے میں وہ تقریبا روز پینتیس پنکچرز کا زکر کرتے تھے اور نجم سیٹھی کی کلاس لیتے تھے۔ پھر ایک دن اقرار کیا کہ یہ سیاسی بیان تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ سیاسی بیان تھا تو تو یہ بیان کس کی تخلیق تھی۔ برگیڈئر سائمن نے ایک بات کی اور آپ پکے ہو گئے۔ اور جب بات صاف ہو گئ تو مسکرا کر ایک بیان دے دیا کہ یہ ایک سیاسی بیان تھا۔ خان صاحب کے قد کاٹھ میں مضید اضافہ ہو جاتا اگر وہ نجم سیٹھی سے معزرت کر لیتے۔ پھر عمران خان ہماری تاریخ کا واحد لیڈر ہے جس نے ایک جمہوری حکومت کے دور میں پاکستانی عوام کو سول نافرمانی پر اکسایا ۔مگرعام لوگوں نے اسے مسترد کر دیا۔ کہنے کو یہ ایک جملہ ہے مگر اس ایک جملے پر گھنٹوں بحث ہو سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک لیڈر نے سول نافرمانی کی بات سوچے سمجھے بغیر کر دی مگر پاکستان کے عام شہری بھی اس سول نافرمانی کی سنجیدگی سے واقف تھے۔ خان صاحب بریف کیس بھر ثبوت لیکر لندن گئے اور بہت بڑا دعویٰ کیا کہ بس اب الطاف حسین کو برطانیہ سے سزا دلوا کر رہوں گا۔

وہی بریف کیس بھر ثبوتوں سے بھر کر خان صاحب آج کل نواز شریف کو سزا دلوانے برطانیہ پہنچے ہیں۔ یہ قوم سے مزاق ہے۔ پارلیمنٹ میں سب سے کم حاضری تحریک انصاف کی ہے اور پارلیمنٹ میں بطور شخصیت عمران خان سب سے زیادہ غیر حاضر رہے ہیں۔ عوام آپ کو پارلیمنٹ میں اس لئے بھیجتی ہے کہ آپ ملک اور عوام کی خدمت آئین اور قانون کے دائرے میں ان کے حقوق کی حفاظت کریں۔ مگرتحریک انصاف نے اپنا یہ وقت دھرنوں اور جلسوں میں خرچ کر دیا۔ اؒاقی طور پر ٹھریک انصاٖ ف کو اپنی تنخواہ اور تمام مراعات واپس کرنی چاہئے۔ کیونکہ آج بھی جن وجوہات کی بنا پر خان صاحب اور ان کی جماعت نے پارلیمنٹ کا بایئکاٹ کررکھا ہے۔ وہ وجوہات اتنی مضبوط نہی ہیں جس کا ثبوت ان کے اپنے وکیل حامد خان کا پانامہ کیس میں دستبردار ہونا ہے۔ ابھی بابر اعوان کیا کرتے ہیں یہ تو وقت بتائے گا مگر حالات یہ بتا رہے ہیں کہ نواز شریف 2018 کے ایلکشن تک وزیراعظم ہیں۔

Watson Gill

Watson Gill

تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم