کارکن گرفتاریوں سے بچیں، توجہ دو نومبر کے احتجاج پر ہے : عمران خان

Police

Police

اسلام آباد (جیوڈیسک) وفاقی دارالحکومت سے ملحقہ شہر راولپنڈی میں شیخ رشید کی جماعت عوامی مسلم لیگ کے حامیوں اور پولیس کے درمیان جمعہ کو جھڑپیں ہوئیں اور شیخ رشید طے شدہ پروگرام کے مطابق اپنی رہائش گاہ ’لال حویلی‘ پر اجتماع سے خطاب نہیں کر سکے۔

شیخ رشید نے اپنے حامیوں کی ایک احتجاجی ریلی کمیٹی چوک سے فیض آباد تک نکالنے کا اعلان کر رکھا تھا، جس میں عمران خان نے بھی شرکت کرنی تھی۔ لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین کو اسلام آباد انتظامیہ نے راولپنڈی جانے سے روک دیا۔

شیخ رشید اپنے حامیوں کی احتجاجی ریلی کی قیادت تو نہیں کر سکے لیکن وہ جمعہ کی سہ پہر موٹر سائیکل پر اچانک راولپنڈی میں کمیٹی چوک کے قریب پہنچے اور میڈیا کی ایک ’ڈی ایس این جی‘ پر سوار ہو کر اُنھوں نے اپنے حامیوں و میڈیا کے نمائندوں سے مختصر بات چیت کرنے کے بعد وہاں سے روانہ ہو گئے۔

شیخ رشید نے کہا کہ ’’ساڑھے چار سو گرفتاریاں اب تک ہو چکی ہیں عوامی مسلم لیگ کی اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی۔۔۔۔ ہم جمہوریت چاہتے ہیں ہم احتساب چاہتے ہیں ہم پاکستان کی سربلندی چاہتے ہیں۔‘‘

عمران خان نے جمعہ کی شام بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اُن کی جماعت کی توجہ دو نومبر کے اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج پر ہے۔

’’جو بھی ہو جائے جس طرح یہ قوم کھڑی ہو گئی ہے، میں چیلنج کرتا ہوں آپ جو مرضی کر لیں پولیس لے آئیں آپ دو (نومبر) کو انسانوں کا جو سیلاب آ رہا ہے، اُسے آپ نہیں روک سکتے، میں اپنے سارے کارکنوں کو کہہ رہا ہوں کہ آپ ابھی سے تیاری کریں دو (نومبر کی) تاریخ کی، آپ نے گرفتاریوں سے بچنا ہے اور آپ کی توجہ صرف دو تاریخ پر ہونی چاہیئے۔‘‘

تحریک انصاف کے سربراہ کا کہنا تھا کہ وہ دو نومبر کو ہر صورت اسلام آباد پہنچیں گے۔ ’’اگر تم ہاؤس اریسٹ کرو گے جو تم نے کر دیا ہے۔۔۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، میرے کارکنوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن دو تاریخ کو تیس ہزار پولیس کھڑی کر لیں میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں کہ تیس ہزار پولیس مجھے نہیں روک سکتی ہے، اسلام آباد جانے سے۔‘‘

عمران خان نے دو نومبر کو اپنے احتجاج کے سلسلے میں اسلام آباد کو “بند” کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ تاہم جمعرات کو راولپنڈی اور اسلام آباد کی انتظامیہ نے ان شہروں میں دفعہ 144 نافذ کر دی تھی اور پولیس نے وفاقی دارالحکومت کے علاقے ای الیون میں تحریک انصاف کے یوتھ کنونشن کے لیے جمع ہونے والے کارکنوں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اسلام آباد سے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی اور وزیر مملکت طارق فضل چوہدری نے جمعہ کو کہا کہ کسی کو بھی احتجاج کی آڑ میں شہریوں کے معمولات زندگی متاثر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

’’وہ تمام انتظامی اقدامات کیے جائیں گے جس کے تحت ہمارے اسکول، ہماری مارکیٹیں، ہمارے دفاتر اور ہمارے اسپتال کھلے رہیں ۔۔۔۔ صرف پمز استپال میں ایک دن میں ایک ہزار سے زائد ایمرجنسی کیس آتے ہیں اور آپ اندازہ لگائیں اگر شہر بند ہو تو وہ مریض کدھر جائیں گے تو کتنی قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔۔۔ اس لیے ہم وہ تمام انتظامی اقدامات کر رہے ہیں تاکہ یہ تمام ادارے کھلے رہیں۔‘‘

حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی یہ کہہ چکی ہے کہ وہ اسلام آباد کو بند کرنے کی حمایت نہیں کرتی لیکن تحریک انصاف کے کارکنوں کو حراست میں لیے جانے پر اس نے بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

حکومتی عہدیداروں کا موقف ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنا کام کر رہے ہیں اور قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔