حج بیت اللہ

Hajj

Hajj

حج اسلام کے 5 ارکان کا آخری رکن ہے۔ تمام عاقل، بالغ اور صاحب استطاعت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ حج بیت اللہ فرض ہے جس میں مسلمان سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں قائم اللہ کے گھر کی زیارت کرتے ہیں۔ حج اسلامی سال کے آخری مہینے ذوالحج میں ہوتا ہے۔
سعودی حکومت حج کے لئے خصوصی ویزے جاری کرتی ہے۔

اسلام کی بنیاد پانچ اشیاء پر ہے۔

1) گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور یقینا حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز کی پابندی کرنا اور زکوٰة ( زکوٰت) ادا کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔

حج بیت اللہ کتاب اور سنت کے دلائل اور اجماع مسلمین کے اعتبار سے فرض ہے۔

اللہ وتبارک و تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے۔
اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے جو اسکی طاقت رکھے اور جو کوئی کفر کرے اللہ تعالیٰ جہان والوں سے بے پرواہ ہے۔ ( سورت آل عمران آیت 97)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے۔
یقینا اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے اس لیے تم حج کرو۔

اجماع امت
مسلمانوں کا اسکی فرضیت پر اجماع ہے اور اسلیے جو کوئی بھی اس کی فرضیت کا انکار کرے اور وہ مسلمانوں کے مابین رہائش پذیر ہو تو وہ کافر ہو گا لیکن اگر کوئی شخص سستی و کاہلی کیساتھ اسے ترک کرتا ہے تو وہ بھی عذاب عظیم کا مستحق ہے۔

کیونکہ بعض علماء کرام کا کہنا ہے۔
وہ کفر کا مرتکب ہوا، یہ قوم امام احمد کی ایک روایت ہے لیکن راجح یہی ہے کہ نماز کے علاوہ کوئی اور عمل ترک کرنیوالا کافر نہیں ہو گا۔

تابعین میں سے عبداللہ بن شفیق رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نماز کے علاوہ کسی اور عمل کو ترک کرنا کفر نہیں سمجھتے تھے۔

اس لیے جو کوئی بھی حج کرنے میں سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرے حتیٰ کہ اسے موت آ جائے تو وہ راجح قوم کے مطابق کافر نہیں لیکن یہ بہت بڑے اور خطرناک معاملہ میں ہے۔

اس لیے مسلمان شخص کو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے جب حج کی شرائط پوری ہو جائیں تو فوری اور جتنی جلدی ہو سکے حج کر لینا چاہیے کیونکہ جتنی بھی اشیاء ہیں وہ فوری طور پر سرانجام دینی چاہییں لیکن اگر اسکی تاخیر میں کوئی دلیل ہو تو کوئی حرج نہیں۔

hajj baitullah

hajj baitullah

فرضیت کی شرائط
فرضیت حج کی پانچ شرطیں ہیں۔
1) اسلام
اس کی ضد کفر ہے اس لیے کافر پر حج فرض نہیں بلکہ اگر کافر حج کرے بھی تو اسکا حج قبول نہیں ہو گا۔
2) بلوغت
نابالغ بچے اور بچی پر حج فرض نہیں اور اگر بچے نے بلوغت سے قبل حج کر بھی لیا تو اس کا حج صحیح ہے اور یہ نفلی حج ہو گا اسکا اجروثواب بھی اسے حاصل ہو گا۔

3) عقل
اسکا ضد جنون اور پاگل پن ہے اسلیے مجنون پر حج فرض نہیں اور نہ ہی اسکی جانب سے حج کیا جائیگا۔

4) آزادی
غلام پر حج فرض نہیں اور اگر وہ حج کرے تو اسکا حج صحیح ہے اور یہ نفلی حض ہو گا اور جب وہ آزاد ہو جائے تو اس پر حج فرض ہے۔ استطاعت کے بعد اسکی ادائیگی کرے گا کیونکہ آزاد ہونے سے قبل حج کی ادائیگی سے فرضی حج ادا نہیں ہوتا۔

بعض علمائے کرام کا کہنا ہے کہ
جب غلام اپنے مالک کی اجازت سے حج کرے تو یہ فرضی حج سے کفایت کر جائیگا اور رجح قول بھی یہی ہے۔

5) مالی اور بدنی استطاعت
عورت کیلئے محرم کا ہونا استطاعت میں شامل ہے اور اسکا محرم نہیں تو اس پر حج فرض نہیں ہو گا۔

حج کا طریقہ:
1)
حاجی 8 ذوالحجہ کو مکہ یا حرم کے قریب سے احرام باندھے اور حج کا احرام باندھتے وقت وہی کام کرے جو عمرہ کا احرام باندھتے وقت کیے جاتے ہیں۔ مثلا غسل کرے اور خوشبو لگائے اور حج کی نیت سے احرام باندھ کر تلبیہ کہے اور حج کا تلبیہ بھی وہی ہے جو عمرہ کا تلبیہ تھا۔

صرف اتنا ہے کہ وہ ”لبیک عمرہ ” کی بجائے ” لبیک حجا ”کہے اور اگر کسی مانع کا خطرہ ہو جو اسے حج مکمل نہ کرنے دے تو شرط لگاتے ہوئے یہ الفاظ کہے۔
” و ان حبسن حابس فمحل حیث حبستن”
( ترجمہ)
اگر مجھے روکنے والی چیز نے روک دیا تو جہاں مجھے روکا گیا وہی میرے حلال ہونے کی جگہ ہے۔
اور اگر کسی مانع کا خدشہ نہ ہو تو پھر شرط لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

Tent City Of Mina

Tent City Of Mina

muzdulfa night

muzdulfa night

jamrah

jamrah

qurbani

qurbani

shaved head

shaved head

2)
پھر منیٰ کی طرف روانہ ہو اور وہاں رات بسر کرے اور نماز پنجگانہ ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نماز منیٰ میں ہی ادا کرے۔

3)
9 ذوالحج کا سورج طلوع ہونے کیبعد عرفات کیطرف روانہ ہو اور وہاں ظہر اور عصر کی نمازیں جمع تقدیم ( یعنی ظہر کے وقت میں ) اور قصر کر کے ادا کرے اور پھر اللہ تعالیٰ کا ذکر اور دعا اور استغفار کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرے۔ حتیٰ کہ سورج غروب ہو جائے۔

4)
جب سورج غروب ہو جائے تو مزدلفہ کیطرف روانہ ہو اور مغرب اور عشاء کی نمازیں مزدلفہ پہنچ کر ادا کرے اور پھر نماز فجر تک وہیں رات بسر کرے اور نماز فجر کیبعد طلوع شمس سے قبل تک اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس سے دعا کرے۔

5)
پھر جمرہ عقبہ جو کہ آخری اور مکہ کی جانب ہے کو کنکریاں مارنے کے لیے وہاں سے منیٰ کی طرف جائے اور اسے مسلسل سات کنکریاں مارے اور ہر کنکری کیساتھ اللہ اکبر کہے اور یہ کنکری تقریبا کھجور کی گھٹلی کے برابر ہونی چاہیے۔

6)
پھر قربانی کرے جو کہ ایک بکری یا پھر اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ ہے۔

7)
پھر مرد اپنا سر منڈائے اور عورت اپنے بال تھوڑے سے کٹوائے نہ کہ منڈوائے جو سارے بالوں میں سے ایک بورے کے برابر ہوں۔

8)
پھر طواف کرنے کے لیے مکہ جائے۔

9)
پھر منیٰ میں واپس دو راتیں بسر کرے، یعنی گیارہ اور بارہ ذوالحجہ کی راتیں اور ہر دن زوال ہو جانے کیبعد تینوں جمرات کو کنکریاں مارے، ہر جمرہ کو سات کنکریاں ماریں گے اور جمرہ صغریٰ یعنی چھوٹے سے کنکری مارنی شروع کرینگے جو کہ مکہ سے دور ہے، پھر درمیانے کو مارے اور ان دونوں کیبعد دعا کرے اور پھر جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارے لیکن اسکے بعد دعا نہ کرے۔

10)
جب 12 ذوالحجہ کی کنکریاں مار لے اور وہ جلدی کرنا چاہیے تو غروب آفتاب سے قبل منیٰ سے نکل جائے اور اگر چاہے تو اس میں تاخیر کرتے ہوئے 13 تاریخ کی رات منیٰ میں بسر کرے اور زوال کیبعد تینوں جمرات کی رمی کرے۔ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے اور 13 تاریخ تک تاخیر کرنا افضل ہے لیکن واجب نہیں لیکن اگر 12 تاریخ کا سورج غروب ہو جائے اور وہ منیٰ سے نہ نکل سکے تو اس صورت میں اسے 13 تاریخ کی رات بھی منیٰ میں ہی بسر کرنا ہو گی حتیٰ کہ نزول کیبعد رمی جمرات کر کے منیٰ سے آنا ہو گا۔

لیکن اگر 12 تاریخ کا سورج غروب ہونے کے وقت وہ منیٰ میں ہی ہو اور یہ اسکے اختیار کی بنا پر نہ ہوا ہو مثلا وہ جانے کے لیے تیار ہو کر گاڑی پر سوار ہو چکا ہو لیکن رش کی بنا پر وہاں سے نہ نکل سکے تو پھر اسکے لیے 13 تاریخ تک رکنا لازم نہیں کیونکہ غروب آفتاب تک تاخیر اسکے اختیار کے بغیر ہوئی ہے۔

11)
جب یہ ایام ختم ہو جائیں اور وہ اپنے ملک یا علاقہ کی طرف سفر کرنا چاہے تو بیت اللہ کا طواف کیے بغیر نہ جائے۔ صرف حائضہ اور نفاس والی عورت اس میں شامل نہیں کیونکہ ان دونوں پر طواف وداع نہیں ہے۔

12)
اور اگر کوئی شخص کسی دوسرے کیطرف سے حج تمتع کر رہا ہو چاہے وہ اسکا قریبی یا کوئی دوسرا شخص ہی ہو تو اسکے لیے ضروری ہے کہ اس نے اپنا فرضی حج کیا ہوا ہو اور حج کا طریقہ وہی ہو گا صرف نیت میں فرق ہے کہ وہ اس شخص کیطرف سے حج کی نیت کرتے ہوئے تلبیہ میں اس شخص کا نام پکارتے ہوے ” لبیک عن فلاں ” کہے گا اور پھر حج میں اپنے اور اس شخص کے لیے دعا کریگا۔

Hajj 2012

Hajj 2012