حضرت ابو ایوب خالد بن زید انصاری حصہ دوئم

Masjid e Nabawi

Masjid e Nabawi

تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ
بنائے مسجد نبوی اور سعادت ِابوایوب
خانہ ابو ایوب میں جلوہ افروز ہونے کے کچھ عرصہ بعد سرور ِکونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں مسجد بنانے کا ارادہ فرمایا اور اس مقصد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو ایوب کے گھر کے سامنے اس قطعہ زمین کاانتخاب کیا جہاں آپ کی اونٹنی آکر بیٹھی تھی۔اس زمین میں کھجور کے درخت تھے جن سے انصار مربد( چھوہارے) بنانے کا کام لیتے تھے۔اس زمین کے مالک بنو نجّار کے دو یتیم بچے سہل اور سہیل تھے ۔ ہادیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار کو بلا کر فرمایا، ”میں یہ زمین قیمت دے کر لینا چاہتا ہوں تا کہ اس میں خا نہ خداکی تعمیر کر سکوں۔”انصار نے عرض کی ، ”یا رسول اللہ ! اس زمین کے مالکوں کو ہم قیمت ادا کر دیں گے اور اسے اپنی طرف سے آپ کے لیے ہبہ کرتے ہیں۔اس کا صلہ ہم اللہ سے لیں گے۔”

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار کے جذبہ ایثار کی تعریف فرمائی لیکن زمین کی قیمت دینے پہ اصرار کرتے مالکان ِزمین سہل وسہیل کوطلب فرمایا۔دونوں سعادت مند بچوں نے عرض کی ، ”یا رسول اللہ!ہم یہ زمین حق تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے آپ کی نذر کرتے ہیں۔”حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،”اللہ تعالیٰ تمہیں جزائے خیر دے ،میں یہ زمین بلا قیمت نہیں لوں گا۔ ” ان بچوں کی والدہ کو معلوم ہوا تو اس نے بھی قیمت لینے سے انکار کیا۔آخر سرور ِعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصحاب الرائے کے مشورہ سے اس زمین کی قیمت دس مثقال(پونے چار تولے)سونا متعین فرمائی۔قیمت متعین ہو جانے کے بعد میزبان ِرسالت کی قسمت کا ستارہ ایک اور بلندی پر چمکا اور حضور نبی کریم کی اس عبادت گاہ اور ابدی مقام فردوس ِعلیٰ کی قیمت آپ نے ادا فرمائی۔

Khaja Abdullah Ansari

Khaja Abdullah Ansari

اس کے بعد زمین ہموار کر کے مسجد کی تعمیر کا آغاز کر دیا گیا۔اس کے معماروں اور مزدوروں میں انصار ومہاجرین اصحاب ِرسولۖ کے ساتھ حبیب ِکبریا بھی بنفس ِنفیس شامل تھے۔سرور ِکونین کی زبان ِاقدس سے دعا نکل رہی تھی، اَللّٰھُمَّ لاَ خَیْرَ اِلاّخَیْرُ الْاٰخِرَةْ، فَاغْفِرِ الْاَنْصَارِ وَالْمُھَاجِِِِرَةْ،الٰہی کامیابی صرف آخرت کی کامیابی ہے پس تو انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما۔صحابہ کرام شہ ِ دوسرا سے التجائیں کرتے کہ حضور ہم غلاموں کے ہوتے آپ زحمت نہ کریں لیکن آپ تبسم فرما کر برابر کام کیے جاتے تھے۔اس موقع پر ابو ایوب انصاری پرجوش انداز میں یہ اشعارپڑھتے؛ لَئِنْ قَعِدْنَا وَالرَّسُوْلُ یَعْمَلْ، لذٰلِکَ فَالْعَمَلِ الْمُضْلَلْ، اگر ہم بیٹھ جائیں اور رسول ِاکرم کام کرتے رہیں تو یہ سخت گمراہی کی حرکت ہو گی۔اسطرح چند ماہ میں دنیا کی یہ مقدس ترین مسجد تعمیر ہو گئی جس کی بنیادوں میں اس عظیم المرتبت صحابی ٔرسول ِاعظم ۖکے عشق ومودت کی مہک شامل ہے۔

ازواج و اولاد،کاروکسب
میزبان ِرسول نے حیات ِدنیا میں دو ازوا ج کو شرف ِزوجیت عطا کیا ۔آپ کی ایک زوجہ کا نام ام حسن بنت ِزید بن ثابت تھاجن سے ایک صاحبزادے عبدالرحمٰن متولد ہوئے جو جوانی ہی میں انتقال کر گئے۔دوسری زوجہ ام ایوب انصاریہ تھیں جو مشہور صحابیہ ہیں اور آپ سے کئی ا حا دیث ِمبارکہ مروی ہیں۔آپ حضور کے لیے کھانا تیار فرماتی تھیں۔آپ کے تین صاحبزادے ایوب،خالد اور محمد اور ایک صاحبزادی عمرة تھیں۔حضرت ابو ایوب کی اولاد کو اللہ تعالیٰ نے بڑی کثرت اور ترقی عطا فرمائی۔دنیائے تصوف کے نامور بزرگ پیر ہرات، شیخ الاسلام خواجہ عبداللہ انصاری ،آپ ہی کی نسل سے ہیں۔

آپ کی اولاد سے دو بزرگ حضرت یوسف انصاری اور حضرت علائو الدین انصاری ہندوستان تشریف لائے۔ ہندوستان اور پاکستان کے انصاریوں کے مورث ِاعلیٰ یہی بزرگ ہیں۔آپ قبیلہ بنو نجار کے رئوسامیں سے تھے۔انصار بالعموم زراعت پیشہ تھے اور ان کی ریاست و امارت زمین اور باغات کی ملکیت سے مختص تھی۔آپ کے مکان سے متصل آپ کا ایک کھجوروں کا باغ تھا۔آپ اپنے خاندان میں آسودہ حال تھے۔اللہ رب العزت نے جہاں آپ کو دینی لحاظ سے عظیم مراتب عطا فرمائے وہیں دنیاوی لحاظ سے بھی اغنیا میں شامل کر دیا تھا۔
حکمراں بادشاہوں پہ سرکار نے
اپنے کوچے کاہراک گدا کر دیا

Tareekh e Madinah

Tareekh e Madinah

عشق ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضرت ابو ایوب انصاری اخلاق ِحسنہ کا پیکر تھے ۔آپ کی عظمت ِکردار کا سب سے نمایاں وصف عشق ِرسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا۔آپ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے انتہا عقیدت و مودت رکھتے تھے اور حضور آپ پر بے پناہ شفقت فرماتے۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے گھر کو اپنا گھر قرار دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خورد و نوش کا اہتمام یہیں ہوتا تھا۔ ابو ایوب اپنے دست ِمبارک سے حضور کے لیے کھانا لایا کرتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہمان بھی آپ ہی کے ہاں سیراب ہوتے تھے ۔ابو ایوب اپنے ہاتھوں سے آپ کے لیے بکریاں ذبح کرتے اورمہمان نوازی کا اہتمام کرتے تھے۔ ہر کھانے سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ابو ایوب انصاری کو حکم دیتے، ”ابو ایوب !پہلے میری لخت ِجگر فاطمہ کے لیے کھانا پہنچا آئیں۔”

ابو ایوب کی حد درجہ میزبانی پہ سرکار آبدیدہ ہو جاتے اور نمناک آنکھوں سے آپ کے لیے دعا فرمایا کرتے ۔حضرت ابو ایوب کے عشق ِرسالت کا یہ عالم تھا کہ کھانے میں جہاں سرور ِعالم کی انگشت ِمبارک کے نشانات ہوتے بہ خیال تبرک و اتباع ِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہی پر اپنی انگلیاں رکھ کر کھانا تناول کرتے۔سرور ِکونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت کی یہ کیفیت آپ میںتا دم آخر رہی۔وصال ِنبوی کے بعد عاشقان ِرسول روضہ اطہر دیکھ کر اپنے جذبات ِعشق ومحبت کو تسکین دے لیا کرتے تھے۔حضرت ابو ایوب بھی اکثر روضہ پاک پہ حاضر ہوا کرتے تھے۔مسند احمد ابن ِحنبل کے مطابق مروان بن حکم کی امارت ِمدینہ کے دنوں میں ایک دفعہ حضرت ابو ایوب انصاری روضہء اطہر پرحاضر ہوئے اورفرطِ محبت میں اپنا چہرہ ضریح ِاقدس سے مس کرنا اور رگڑنا شروع کیا ۔اتفاق سے گورنر مروان بھی وہاں موجود تھا ۔اس نے حضرت ابو ایوب سے مخاطب ہو کر کہا،”آپ کا یہ فعل خلاف ِسنت ہے۔”حضرت ابو ایوب نے جواب دیا ،’ ‘ مروان! میں کسی اینٹ اور پتھر کے ڈھیر کے پاس نہیں آیا بلکہ رسول اکرم ۖکی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوا ہوں۔”

Mujahideen e Islam

Mujahideen e Islam

عشق ِآل ِرسول
حضرت ابو ایوب انصاری خانوادئہ نبوت کے تمام افراد سے پرخلوص عقیدت و مودت رکھتے تھے۔وصال ِنبوی کے بعد آپ ان چندا صحاب ِکبار میں سے تھے جنہوں نے کھل کرمولائے کائنات کا ساتھ دیا تھا۔آپ حضور کے خلیفہ برحق کے پرجوش رفیق و جانثار رہے۔اسی عشق ِآل رسول اور مودت فی القربیٰ کے باعث آپ شیر خدا سیدنا علی المرتضٰی اور پیغمبر اکرم کے دیگر اعزا میں انتہائی قدر و منزلت اور عزت و احترام رکھتے تھے۔

عبد اللہ ابن ِعباس اور ابو ایوب انصاری
جس زمانہ میں سیدناحضرت علی کی طرف سے حِبْرُالْاُمَّةْ حضرت عبداللہ ابن ِعباسبصرة کے گورنر تھے ،حضرت ابو ایوب انصاری ان سے ملنے کے لیے بصرة تشریف لے گئے ۔حضرت عبداللہ ابن عباس کو آپ کی تشریف آوری سے کمال درجہ مسرت ہوئی ۔انہوں نے بصرة میں اپنا مکان ساز وسامان سمیت حضرت ابو ایوب کی نذر کر دیا اور کہا کہ جس طرح آپ نے رسول اکرم کی میزبانی کے لیے اپنا گھر خالی کر دیا تھا اسی طرح میری دلی مسرت بھی اسی میں ہے کہ آپ کی میزبانی کے لیے اپنا گھر خالی کر دوںاور اس کے اندر جو مال و اسباب ہے وہ آپ کی نذر کر دوں۔

Madinatun Nabi

Madinatun Nabi

نقیب ِبنو نجّار ، دعائے حفظ
تعمیر مسجد نبوی کے دوران سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو نجار کو ایک اور لازوال شرف عطا فرماتے ہوئے فرمایا، ”تم لوگ میرے ماموں ہو ، اس لیے بنو نجار کا نقیب میں خود ہوں۔”یہ سن کر بنو نجار فرط مسرت سے بیخود ہو گئے اور اس سعادتِ عظمٰی کو ہمیشہ کے لیے اپنا سرمایہ افتخار بنا لیا۔خاندان ِابو ایوب انصاری کے نقیب خود سرکار ِدوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو گئے اور انہیں لازوال شرف ِدوام بخشا۔ہجرت کے بعدمنافقین ِمدینہ اور یہودیوں نے کفار و مشرکین ِمکہ کے ساتھ مل کر اسلام و فرزندان ِتوحید کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کر دیں۔ابو ایوب انصاری ہتھیار بند ہو کر سرکار ِدوعالم کا پہرہ دیتے تھے اور حضور آپ کے لیے دعا فرماتے؛ ”ابوایوب ! خدا تمہیںاپنے حفظ و امان میں رکھے کہ تم نے اس کے نبی کی نگہبانی کی۔”اسی دعائے ختمی مرتبت کا اثر تھا کہ حضرت ابو ایوب انصاری زندگی بھر مصائب و آلام سے محفوظ رہے اور وفات کے بعد بھی صدیوں تک نصاریٰ ان کی قبر کی حفاظت و نگرانی کرتے رہے، حتیٰ کہ آج تک حکومت ِترکی قسطنطنیہ آپ کے روزئہ اطہر کی نگران ہے۔

مواخات ِمدینہ
مواخات ِمدینہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو ایوب انصاری کو حضرت مُصعب بن عمیر کابھائی بنایا۔رشتۂ مواخا ت میں گہری حکمت و مصلحت ایک تو یہ کہ مہاجرین کے دل سے غریب الوطنی کا احساس جاتا رہے ،دوسرے یہ کہ مہاجرین جو ابتلا و مصائب کی بھٹی میں پڑ کر کندن بن چکے تھے اور جن کی تربیت و اصلاح سرور ِعالم نے خود فرمائی تھی،اپنے نومسلم انصار بھائیوں کی تربیت کر سکیں تا کہ وہ بھی ہادیٔ اکرم ۖ کے صحیح معنوں میں مزاج شناس بن جائیں ،چنانچہ مواخات فرماتے حضور ۖنے دونوں بھائیوں کے مزاج اور رجحان ِطبع کا خاص خیال رکھا۔

Msa'ab bin Umayr

Msa’ab bin Umayr

حضرت ابوایوب انصاری اپنے خاندان میں آسودہ حال اورانصار کے سابقون الاولون میں سے تھے ۔قبول ِاسلام کے بعد اپنے خاندان کے معلم بن گئے ۔ ہادیٔ اکرم کی میزبانی کی سعاد ت ِعظمٰی حاصل کی اور راہِ حق میں کسی موقع پر بھی اپنی جان و مال پیش کرنے سے روگرداںنہ ہوئے۔آپ کے مواخاتی حضرت مُصعب ،عمیربن ہاشم بن عبدمناف بن عبدالداربن قصی بن کلاب بن مرةاورخُناث بنت ِمالک کے فرزند، قریش کے آرمیدہ و آسودہ خانوادے کے چشم وچراغ ،ناز و نعم میں پلے کہ آپ کا شمار مکہ کے رعنا و خو ش پوش جوانوں میں ہوتا تھا۔نفیس و قیمتی لباس پہنتے اور عمدہ خوشبو استعمال فرماتے تھے۔پائوں میں زری حضرمی جوتا ہوتا ۔آپ کی صورت و پوشاک ہی عمدہ نہیں تھی بلکہ سیرت و اخلاق بھی نہایت پاکیزہ تھے۔مہاجرین ِحبشہ میںسے تھے۔

ہجرت کے مصائب نے ان کی رعنائی و خوش پوشی کو خواب و خیال بنا کر رکھ دیا ۔بوسیدہ و موٹا لباس پہنتے جس میں کئی پیوند لگے ہوتے۔بدن کی نرم و نازک کھال موٹی اور کھردری ہو گئی ۔چہرہ اتر گیا ۔ رنگ برگ ِخزاں رسید ہ کی طرح پیلا پڑ گیا لیکن سینے میں قلب ِمومن دھڑک رہا تھا جس نے اپنے آقا و مولا کی خدمت اور زہد و فقر کی زندگی کو عیش و تنعم پر ترجیح دی۔ایک دن یہ برادر ِابوایوب دربارِ رسالت میں اس شان سے حاضر ہوئے کہ ان کے پاس ستر پوشی کے لیے صرف ایک بوسیدہ چادر تھی جو کئی جگہ سے پھٹی ہوئی تھی اور ایک جگہ اس پر کھال کا پیوند لگا ہوا تھا ۔سرور ِکونین ۖ نے آپ کو دیکھا تو آبدیدہ ہو کر فرمایا،”میں نے جب اس نوجوان کو دیکھا تھا تو اس وقت مکہ میں کوئی بھی اس سے زیادہ ناز و نعم کا پروردہ و خوشحال نہیں تھا لیکن اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت پر اس نے اپنے تمام عیش و آرام کو قربان کر دیاہے۔” مَارَأیْتَ بِمَکَّةْ اَحْسَنَ لُمَّةْْ وَلاَ اَنْعَمَ نِعْمَةَمِنْ مُصْعَبْ بِنْ عُمَیْر۔

ابو محمد حضرت مُصعب بن عمیر نے حضور کی صحبت ِاطہر سے فیض حاصل کیا اور جلد ہی عالم ِدین و فقیہ سمجھے جانے لگے۔ علم کے بحر زخّار، حلم و انکسار ی میں یکتا ،شیریں مقالی و بلند اخلاقی کے باعث عوام میں مقبول ہوکرمُصْعَبَ الْخَیْر کہلانے لگے ۔اہل ِمدینہ کی درخواست پہ اسلام کے پہلے داعی اور معلم بن کر مدینہ تشریف لے گئے۔نبوت کے تیرہویں سال تہتر مردوں اور دو عورتوں کے ہمراہ حج کے موقع پر مکہ آئے اور بیعت ِعقبہ ثانیہ سے مشرف ہوئے۔دو ہجری میں جنگ ِبدر کے تین سو تیرہ نفوس ِقدسیہ میں سے تھے اور مہاجرین کا علم تھامے جانبازی کا حق ادا کر دیا۔تین ہجری میں غزوئہ احد کے ثابت قدم مجاہدین میں سے تھے اور بلند آواز سے نعرہ بلند کیا، ”میں رسول اللہ کا علم سرنگوں نہیں ہونے دوں گا۔”

Yathreb

Yathreb

یہ کہہ کر ایک ہاتھ میں برہنہ شمشیراور دوسرے میں علم لیے کفار پہ ٹوٹ پڑے ۔ان حالات میںابن ِ قمیة نے بڑھ کر تلوار کا وار کیا اور داہنا ہاتھ شہید کر ڈالا۔حضرت مصعب نے فوراََبائیں ہاتھ میں علم لے لیا ۔ ابن ِقمیة نے بایاں ہاتھ بھی شہید کر دیا ۔انہوں نے کٹے ہوئے بازئووں کا حلقہ بنا کر علم کو سینے سے چمٹا لیا اور تہیہ فرما رکھاتھا کہ جب تک سانس ہے علم سرنگوںنہیں ہونے دوں گا۔ابن ِ قمیة نے ان پر نیزے کا ایسا بھرپور وار کیا کہ اس کی انی ٹوٹ کر مصعب کے علم و عشق سے معمور مقدس سینے میں رہ گئی اور وہ خالق ِحقیق سے جا ملے۔(بعدازاںابنِقمیة کو جنگلی پہاڑی بکرے نے سینگ مار مار کر پہاڑسے نیچے گراکرسپردِسقرکردیا)۔گرتے وقت ان کے بھائی ابو الروم بن عمیر نے علم سنبھال لیا اور لڑائی ختم ہونے تک اسلام کاپرچم تھامے حق ِشجاعت ادا کرتے رہے اورجنگ کے بعد اس علم کو سرنگوں کیے بغیر مدینہ لائے۔

شہدا کی تجہیز و تکفین کے وقت اصحاب ِکبار نے دیکھا کہ مکہ کے جوان ِرعنا ،برادر ِابو ایوب ،مُصعب بن عمیر چہرہ کے بل گرے ،خاک و خون میں غلطاں ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا جسد ِاطہردیکھ کر سورة مبارکہ احزاب کی آیت ِمبارکہ تلاوت فرمائی؛ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالصَدَقُوْا مَا عَاھَدُواْ اللّٰہَ عَلَیْہِصلے فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضیٰ نَحْبَہُ، وَ مِنْھُمْ مَنْ یَنْتَظِرُصلے وَمَابَدَّلُواْ تَبْدِیْلاً لاة ٢٣ مومنین میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا اسے سچ کر دکھایا ۔بعض ان میں اپنی مدت پوری کر چکے اور بعض ابھی انتظار کر رہے ہیں اور اپنے ارادہ میں کوئی تغیر و تبدل نہیں کیا۔

پھر فرمایا ؛”میں نے مکہ میںتمہارے جیسا حسین و خوش لباس اور کوئی نہ دیکھا تھا لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمہارے بال الجھے ہوئے ہیں اور جسم پر صرف ایک چادر ہے۔بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ تم قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہیدوں میں ہو گے۔” پھر ان کی تکفین کاحکم دیا لیکن امبر اسقدرمختصرتھا کہ سر ڈھانپا جاتا تو پائوں کھل جاتے اور پائوں مستور کیے جاتے تو سر برہنہ ہو جاتا۔بالآخر سرکار ِدوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سر چادر سے ڈھانپ دواور پائوں کو گھاس سے چھپا کرشہید ِحق کو سپرد ِخدا کر دو۔صحابہ نے حکم کی تعمیل کی اور پیکر ِصدق و صفا ،برادر ِابو ایوب انصاری حق وصداقت کاعلم لیے تاریخ ِعالم کاسنہرا باب بن گئے۔

Dr Syed Ali Abbas Shah

Dr Syed Ali Abbas Shah

تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ
ریکٹر والعصر اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ