کون اب ہم کو جگانے آئے

Sad

Sad

کون اب ہم کو جگانے آئے
زخم سینے کے دِکھانے آئے
ہم تجھے ساتھ رُلانے آئے
چشمِ ساقی نے سہارا جو دیا
تب کہیں ہوش ٹھکانے آئے
سو گئے اوڑھ کے مٹی کی رِدا
کون اب ہم کو جگانے آئے
اِس ہوس کار زمانے میں بھی
ہم تیرا بوجھ اٹھانے آئے
وقتِ رخصت جو کیا تھا وعدہ
وہ تجھے یاد دلانے آئے
میں زمانے سے الجھ سکتا ہوں
تو اگر ساتھ نبھانے آئے
کتنے برباد نظر آتے ہیں
جو تیری بزم سجانے آئے

ساحل منیر