بند اوراق میں مرتے ہی رہے حرف میرے

Love

Love

خود جلائے کبھی مصلوب کئے جاتے رہے
درد پہ انکے کئی خوب کئے جاتے رہے

سسکیاں لیتے رہے اور کبھی چلانے لگے
کبھی خاموش و پشیماں بھی نظر آنے لگے

آہ سنتی رہی انکی میں کبھی خوابوں میں
جاگ اٹھنے پہ وہ خود ہی مجھے سہلانے لگے

جانے کیا درد تھے ان کے میں نہیں جان سکی
عمر بھر ان کے میں مفہوم نہ پہچان سکی

تلف ہو جانے سے ڈرتے ہی رہے حرف میرے
بند اوراق میں مرتے ہی رہے حرف میرے

شاعرہ : ایمن ہاشمی
Mail; bintehawwa1997@gmail.com