شاہِ اجمیر کا جلوہ

Dargah Hazrat Khwaja Moinuddin Chisti Ajmeri

Dargah Hazrat Khwaja Moinuddin Chisti Ajmeri

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
شہنشاہِ اجمیر عطائے رسول خواجہ خواجگان کا رنگ جلال کام کر چکا تھا شاہ اجمیر کے لاڈلے مرید خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے خلاف جھوٹی گواہی دینے والے چاروں پہلوان نما آدمی قوت گویائی سے محروم ہو چکے تھے وہ جب بھی بولنے کی کوشش کرتے ہو نٹ لرز کر رہ جاتے بادشاہ التمش اور درباری حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے جن گواہوں کو بڑے غرور سے پیش کیا تھا وہ پتھر کے مجسموں کی طرح بے حس و حرکت کھڑے تھے وہ جھوٹ بول بھی کیسے سکتے تھے وہ حقیقی سلطان الہند شاہِ اجمیر کے رو برو کھڑے تھے جن کے ابروئے چشم پر لاکھوں بت کے پجاری نور ایمانی میں رنگے گئے تھے۔

خواجہ قطب پر جھو ٹا الزام لگا نے والی عورت نے جب گواہوں کو چپ دیکھا تو چیخ چلا کر رو نے لگی اور کہنے لگی خدا کے لیے اب بو لو میرے حق میں گو اہی دو عورت کے الزام پر با دشاہ ِ التمش کھڑا ہوا بو لا چپ کر جا اے عورت تم ابھی بھی اپنے الزام سے واپس نہیں ہو رہی تم نہیں جا نتی تم نے کرہ ارض کی کتنی بڑی روحا نی ہستی پر الزام لگا یا ہے عورت نے پینترا بدلا جناب آپ کے رعب و جلال سے یہ نہیں بو ل رہے ہیں کیو نکہ یہ جانتے ہیں کہ قطب الدین آپ کے مرشد اعلی ہیں اگر اِن سے تنہائی میں پو چھیں گے تو یہ ضرور میرے حق میں گواہی دیں گے التمش کا جلال اور بھی بڑھ گیا اور کہا تم لو گوں نے ایک نیک انسان پرتہمت لگا ئی ہے اب اِ س کی سزا تم بھگتو گے با دشاہ کا غصہ دیکھ کر گوا ہوں کے چہروں پر زندگی کی لا لی کی جگہ مو ت کی زردی رقص کرنے لگی گو اہو ں کو اپنی مو ت سامنے نظر آرہی تھی مو ت کے خو ف سے انہوں نے بار بار بو لنے کی کو شش کی لیکن نہ بو ل سکے گو اہوں کی بے بسی دیکھ کر انسانوں کے عظیم مسیحا شفیق تبسم سے بو لے با دشاہ یہ نہیں بو ل سکیں گے یہ زر خرید غلام ہیں با دشاہ بو لا شاہا اب اِس مقدمے کا فیصلہ کیسے ہو گا۔

بادشاہ بے بسی سے پہلو بد ل رہا تھا جس خدا ئے لا زوال نے ہر گھڑی میں اِس فقیر کا ساتھ دیا آج بھی اُس کے کرم سے اِس مقدمے کا فیصلہ ہو گا پھر دلوں کے مسیحا قاضی کی طرف متوجہ ہو ئے اور کہا میں مانتا ہوں آپ اِس عہدے کا علم رکھتے ہیں لیکن علم کے ساتھ فہم ادراک آگہی بصیرت کشادہ دل بھی ضروری ہے آپ کا فرض بنتا تھا حیققت تک پہنچنا سچ جاننے کے لیے آپ کو مختلف ذرائع استعمال کر نے چاہیے تھے میں دیکھ رہا ہوں دربار میں اور دہلی شہر میں بہت سارے لوگ خوا جہ قطب سے حسد کی آگ میں جھلس رہے ہیں حسد کی آگ میں یہ اندھے ہو چکے ہیں الزام لگا تے وقت انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اِس کا ئنا ت کا ما لک حق تعالیٰ جو کبھی بھی اپنے دوستوں کو بے یار و مددگار نہیں چھو ڑتا آج اِس الزام کا جواب یہ بچہ خو د دے گا اِس کا با پ کون ہے عورت اور دربا ریوں پر سکو ت مر گ طاری تھا سنا ٹے کی چادر سب کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی کہ دو ما ہ کا شیر خوا ر بچہ کس طرح بو لے گا۔

خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قاضی سے مخا طب ہو ئے کہا آپ اِس بچے کی گوا ہی قبو ل کریں گے قاضی حیرت سے نکل کر بو لا جناب گو اہی تو دور کی بات ہے یہ بو لے گا کس طرح’ جس نے بچے کو پیدا کیا وہی اِس کو بو لنے کی قدرت عطا کر ے گا شاہ ِ اجمیر کی پر جلا ل آواز گو نجی قاضی کا رنگ اڑ چکا تھا اب با دشاہ التمش بو لا قاضی صاحب انصا ف کے حصول کے لیے ہر ذریعہ قبول کیا جا تا ہے آپ کیوں ٹا ل مٹول سے کام لے رہے ہیں اب قاضی نیچے اترا عورت کے پاس آیا تو بچے نے رونا شروع کر د یا قاضی نے بچے کے با پ کا نام پو چھا تو بچہ اور تیز رونے لگا قاضی نے ایک بار دوسری بار تیسری بار اپنا سوا ل دہرایا لیکن بچہ جواب دینے کی بجا ئے مسلسل رو رہا تھا۔

اب قاضی کا خو ف دور ہو رہا تھا اب اُس نے تحقیر آمیز مسکراہٹ سے سلطان الہند کی طرف دیکھا اور کہا جناب اتنے چھو ٹے بچے با ت نہیں کر سکتے جب کوئی با ت ہی نہیں کر سکتا تو شہا دت کس طرح دے گا اب عورت بھی خو ف سے نکل کر اٹھی اور فریا د کر نے لگی ظل الٰہی مجھے کیوں تما شا بنا یا جا رہا ہے میرا مذاق اڑانا بند کیا جا ئے لیکن با دشاہ کے بو لنے سے پہلے ہی شاہ اجمیر کی با رعب آواز گو نجی ‘بچے خا موش ہوجا ئو پھر اہل دربار نے دیکھا بچہ فورا چپ ہو گیا پھر سلطان الہند کی آواز گونجنے لگی اے پروردگار تو ہمیشہ گنا ہوں کی پردہ پو شی کر نے والا ہے اے میرے خدا میں نے پو ری کو شش کی کسی کا گنا ہ یہاں بیان نہ کروں پر دہ پو شی کروں لیکن دنیا داروں نے میرے اور قطب کے لیے اب کو ئی راستہ نہیں چھوڑا اے میرے رحمن رحیم پروردگار ہمیشہ کی طرح آج بھی میری مدد فر ما پھر خوا جہ خوا جگان چلتے ہو ئے عورت کے قریب آئے درباریوں کے سانس رک چکے تھے دربار پر سنا ٹا طا ری تھا سلطانوں کے سلطان نے اپنا دستِ شفقت بچے کے ہونٹوں پر رکھا اور شفیق لہجے میں پکا را اے معصوم پھو ل تو بے قصور ہے میں تجھے اِس تکلیف سے نہیں گزارنا چاہتا تھا لیکن تیرے ما ں با پ نے میرے لاڈلے پھول میرے چاند خوا جہ قطب پر داغ لگا نے کی کو شش کی ہے جو مجھے بہت لا ڈلا پیا را ہے میں اور میرا قطب کئی راتوں سے سوئے نہیں اب توہی بتا کہ تیرا با پ کو ن ہے میری اور میرے قطب کی رسوائی پر جشن منا نے والوں کو بتا تیرے با پ کا نام کیا ہے۔

پھر نبض کائنات رک گئی آنکھیں پتھر کی ہو گئیں سانسیں رک گئیں اور پھر شاہ اجمیر کا جلو ہ سامنے آگیا اچانک دربار معصوم کی آواز سے گونجنے لگا اسلام علیکم یا سلطان الہند بچے اللہ تم پر مہربان ہو اہل دربار کو اپنے با پ کا نام تم خو د بتا دو پھر شاہ اجمیر کی کرامت کا نور دربار میں پھیل گیا جب بچے نے بتا یا میرا با پ با دشاہ کے دربار کا معزز درباری اورسردار ہے اور پھر با پ کا نام بھی بتا دیا دربا ری پتھر کے بتوں کا روپ دھار چکے تھے عورت اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی تھی زمین پر گری ‘وحشت زدہ انداز میں چاروں طرف دیکھتی رہی پھر بے ہو ش ہو گئی۔

خواجہ پاک کے لاڈلے مرید قطب جو بڑی دیر سے سر جھکا ئے کھڑے تھے دیوانہ وار آگے بڑے مرشد کے قدموں سے لپٹ گئے اور بار بار ایک ہی فقرہ بو ل رہے تھے شاہا آپ کے قدموں سے لپٹنے والے خا ک کے ذرات ہی میری منزل ہیں شاہ اجمیر نے قطب کو اٹھایا اور گلے سے لگا لیا آنسوئوں کے سیلاب کا جو بندھ کتنے دنوں سے بندھا ہوا تھا ٹوٹ کر بہہ نکلا قطب رو رو کر اپنا چہرہ مبارک تر کر رہے تھے اب با دشاہ اور درباریوں کی نظریں اُس سردار پر جمی ہو ئی تھیں جو اپنے ہی عرق ندامت میں غرق نظر آ رہا تھا وحشت زدہ انداز میں دیوانہ وار شاہ اجمیر کی طرف بڑھا اور آپ کے قدموں پر سر رکھ کر کہا شہنشاہِ میں لوگوں کی با توں میں آگیا تھا میں دربار ی علماء کی باتوں میں آگیا تھا کہ خانقاہوں میں بیٹھے یہ فقیر بے عمل زندگی گزارتے ہیں اب بادشاہ بھی درویش کے حلقہ اثر میں آ گیا ہے اِس طرح تو ہندوستان پر اِن درویشوں کا قبضہ ہو جائے گا اِسطرح ہمیں کوئی نہیں پو چھے گا با دشاہ کو اِس درویش کے حلقہ اثر سے نکالنا ہو گا پھر خوا جہ قطب کی ذات کو داغدار کر نے کے لیے منصوبہ تیا ر کیا گیا اِس منصوبے میں علما ئے وقت اور کچھ دربار ی شامل تھے بنیا دی کردار مجھے دیا گیا کیوں کہ میں با دشاہ کے دربار میں با اثر تھا میرے خلا ف کو ئی نہیں بو ل سکتا تھا پھر ہم نے سازش کے تحت یہ سارا کھیل کھیلا میں نے بہت بڑا جرم کیا مجھے ایسی سزا دی جا ئے کہ آئندہ کو ئی ایسی حرکت کا سوچ بھی نہ سکے لیکن مجھے یہ سکون ہے کہ میں نے مر نے سے پہلے مرد خدا کے پا ئوں کو چوما پھر وہ اٹھا اور خو اجہ قطب کی طرف بڑھا اور بو لا اے مرد درویش مجھے اپنا ہا تھ چومنے دیں۔

پھر خواجہ قطب کے ہا تھ پر آنکھیں رکھ کر دھاڑیں مار کر رونے لگا پھر خوا جہ قطب با دشاہ سے مخا طب ہو ئے اور کہا میں نے اِس کو معاف کیا آپ بھی اِس کو معاف کر دیں پھر سردار سے کہا تم اِس عورت اور بچے کو ان کے حقو ق دے دو پھر تا ریخ انسانی کے دو عظیم درویش انسانوں کے سمندر سے گزرتے ہو ئے آستا نہ قطب پر چلے گئے پھر چند دن بعد خواجہ قطب کے آستا نے پر لوگوں نے ایک مرد اور عورت کو دیکھا عورت بر قعے میں تھی مرد کی داڑھی بڑھی ہوئی با ل بے تر تیب شکستہ حال لوگوں نے دیوانہ سمجھا۔ دونوں نے زبردستی اندر جا نے کی کو شش کی خا دموں نے روکا تو خوا جہ قطب نے دونوں کو اندر بلا لیا اندر خوا جہ معین الدین اور خوا جہ قطب جلوہ افروز تھے عورت نے اندر آ کر نقاب ہٹا دیا یہ وہی عورت تھی جس نے خوا جہ قطب پر الزام لگا یا ساتھ وہی سردار تھا جو دربار چھو ڑ چکا تھا بو لا شاہ دہلی یہ عورت ہندو رقاصہ تھی اب یہ آپ کے ہا تھوں مسلمان ہو نے آئی ہے پھر وہ زیور ایما نی سے ہمکنار ہو گئی سردار بو لا شاہا مجھے اپنے غلاموں میں شامل کر لیں تو خوا جہ قطب بو لے دربار میں تمہار ے جیسے لوگوں کی زیادہ ضرورت ہے با دشاہ کے نام خط لکھا کہ اسے دوبارہ اسی منصب پر بحال کیا جا ئے خدا معاف کرنے والوں کو پسند فرماتاہے عورت جاتے ہو ئے بار بار ایک ہی با ت کہ مجھے دنیا میں ہی جنت مل گئی مجھے خوا جہ قطب کے ہاتھوں مسلمان ہونے کی سعادت نصیب ہو ئی مرد درویش کے در پر جو بھی آیا ایمان کے نور میں ڈوب کر واپس گیا۔

PROF MUHAMMAD ABDULLAH KHAN BHATTI SB

PROF MUHAMMAD ABDULLAH KHAN BHATTI SB

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org