ارے وہ تو ہماری بھی نانی نکلی

Leaked Panama,

Leaked Panama,

تحریر: سلطان حسین
پانامہ لیکس نے پاکستان کیا پوری دنیا میں ایک ہنگامہ برپا کر رکھا ہے کیا چھوٹے کیا بڑے کیا سیاست دان کیا حکمران ہر ایک کی اپنی کہانی ہے اور ہر کہانی بڑی پرانی ہے لیکن یہ پرانی کہانی اب نئی بن گئی جسے پانامہ یا” پاجامہ” نے پاجامہ پاجامہ کر دیا ہر ایک دہائی دے رہا ہے اور صفائیاں پیش کر رہا ہے ایسے میں ایک قاری کا فون آیا اور ستفسار کیا کہ پانامہ یا پاجامہ پر اپ کی طرف سے خاموشی کیوں ہے میں نے اسے ایک کہانی سنائی آپ بھی سن لیں”ایک بڑھیا تھی۔ وہ بڑھیا اپنا سارا گہنا پہن کر کہیں جا رہی تھی گہنا کیا تھا؟ یہی کانوں میں جھمکے تھے۔ باہوں میں گنگن تھے اور گلے میں ہار تھا۔ مگر یہ سارے زیور تھے سونے کے۔ بڑھیا کے پیچھے دو ٹھگ لگ گئے۔ دونوں بڑے چال باز، مکار اور عیار تھے۔ دونوں آپس میں گہرے دوست تھے۔

دونوں چاہتے تھے کہ بڑھیا سے سارے کا سارا زیور ہتھیا لیں۔ لیکن بڑھیا نے بھی اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے تھے، وہ ٹھگ تو ٹھگ تھے ہی. یہ بڑھیا ان کی بھی نانی تھی۔ایک ٹھگ نے آگے بڑھ کر علیک سلیک کے بعد پوچھا کہ بڑی اماں کہاں جا رہی ہو؟بیٹاشہر جا رہی ہوں بڑھیا نے جواب دیا۔پھر تو خوب ساتھ ہوگا۔ بڑی اماں ہم بھی تو شہر ہی جارہے ہیں۔ دوسرا ٹھگ بولا۔تھوڑی دور چلنے کے بعد ایک ٹھگ بولا۔بڑی اماں کوئی کہانی ہی سنا دیںجس سے سفر کی تھکان معلوم نہ ہو اور وقت بھی جلد کٹ جائے۔بیٹامیں بھلا کون سی کہانی سناؤں؟ تم ہی کچھ کہو۔ہم سنائیں۔ دوسرا ٹھگ بولا۔ مگر بڑی اماں ایک شرط ہے۔ وہ یہ کہ اگر تم نے ہماری کہانی کو جھوٹ کہا تو ہم تمہارے کنگن اتار لیں گے۔ بڑھیا نے ان کی یہ شرط مان لی اور ایک ٹھگ کہانی سنانے لگا۔بڑی اماں! ہماری ایک گائے تھی۔ بڑی خوب صورت موٹی موٹی آنکھیں تھیں اس کی۔ لمبے لمبے کان تھے۔ دودھ اتنا دیتی تھی کہ ہم دوہتے دوہتے تھک جاتے تھے لیکن دودھ پھر بھی ختم نہ ہوتا تھا۔

Pakistan

Pakistan

اس میں خاص بات یہ تھی کہ اگر ہم اس کے داہنے سینگ پر بیٹھ جاتے تو مغرب میں پہنچ جاتے اور جب بائیں پر بیٹھتے تو مشرق میں آجاتے۔پاکستان بننے پر جب ہم قافلے کے ساتھ پاکستان آرہے تھے تو ہم پر فسادیوں نے حملہ کر دیا۔ ایک سنسناتی ہوئی گولی آئی اور ہماری گائے کو لگی جس سے بے چاری وہیں ڈھیر ہو گئی۔بڑا افسوس ہوا۔ بڑھیا نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا۔بڑی اماںاب تم کچھ سناؤ۔ ٹھگ نے تیر نشانے پر نہ لگتے دیکھ کر کہا۔میں سناؤں؟ بڑھیا نے کہا۔ اگر تم نے میری بات کو غلط جانا تو تمہیں ایک ہزارروپیہ دینا پڑے گا۔ٹھگوں نے کہا۔ ہمیں منظور ہے۔تو پھر سنو بیٹوںجب میری شادی ہوئی تو میرے والد نے ایک بیل بھی مجھے جہیز میں دیا۔ بڑا اچھا بیل تھا۔ کسی کو کچھ نہ کہتا تھا، ایک دفعہ یوں ہی باہر کھیت میں کسی دوسرے بیل اس سے لڑ پڑا۔ ایسا لڑا کہ ہمارے بیل کے ماتھے پر اچھا خاصا زخم ہو گیا ہم نے بہترے علاج کرائے لیکن زخم نہ بھر سکاکرنا خدا کا یہ ہوا کہ بنولے کا دانہ اس کے زخم میں کہیں سے گر گیا۔

ہوتے ہوتے وہ اچھا خاصا پودا بن گیا۔ اس میں ایسی نفیس کپاس لگی کہ تمہیں کیا بتاؤں، وہ کپاس ہم نے جمع کرنی شروع کر دی۔ اتنی کپاس جمع ہو گئی کہ اب گھر میں جگہ نہ رہی، گھر گھر ہمارے بیل کے چرچے ہونے لگے، بڑی دور سے لوگ اس انوکھے بیل کو دیکھنے کے لیے آتے۔ اس کی کپاس کو دیکھتے اور تعریفوں کے پل باندھ دیتے۔ اب ہمارے پاس اتنی زیادہ کپاس ہو گئی کہ سنبھالنا مشکل ہو گیاتھا۔ ہم نے اسے بیلوا کر کاٹنا شروع کیا اور اس کا کپڑا بنانے لگے، کئی قسم کے کپڑے بنوائے، جن میں کھیس بھی تھے، ان کھیسوں میں سے دو کھیس کہیں چوری ہو گئے۔ بیٹاخدا جھوٹ نہ بلوائے، یہ کھیس جو تم اوڑھے ہوئے ہو، وہی ہیں جو چوری ہوئے تھے۔ مہربانی کر کے یہ کھیس اتار دو۔دونوں ٹھگوں نے اپنے کھیس بڑھیا کو دے دئیے اور کرتے بھی کیا۔ شرط جو تھی۔ مجبور تھے۔ہاں تو بیٹابڑھیا نے پھر کہانی کا سلسلہ شروع کیا۔

ہم نے اس کپاس میں سے ململ کے تھان بنوائے۔ ململ کے تھانوں میں سے ایک تھان گم ہو گیا۔ یہ جو تمہاری پگڑیاں ہیں، اسی تھان کی ہیں، یہ بھی اتاردو۔انہوں نے پگڑیاں بھی اتار دیں۔ نہ اتارتے تو شرط کے مطابق ہزار روپیہ دیتے۔اب شہر نزدیک ہی تھا۔ ایک ٹھگ بولا۔ بڑی اماںبھوک لگ رہی ہے۔اچھا بیٹاشہر آیا ہی سمجھو۔ مجھے اپنے کنگن بیچنے ہیں۔ کنگن بیچ لیں اور پھر آرام سے کسی جگہ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔وہ خاموش ہو گئے اور سوچنے لگے کہ بڑھیا کنگن بیچ لے پھر کوئی داؤ چلائیں گے۔ وہ بڑھیا کے ساتھ چلتے ہوئے اپنے دماغ میں تدبیروں کے گھوڑے دوڑانے لگے۔اب وہ شہر میں پہنچ گئے تھے۔ ہر طرف خوب چہل پہل تھی۔ کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ بڑھیا نے اپنے کنگن اتار لیے اور ان سے کہنے لگی:بیٹاسنار کی دکان آ گئی ہے۔

Old woman

Old woman

تم یہاں بیٹھو میں اپنے کنگن بیچ لوں۔وہ سنار کی دکان کے قریب ہی بیٹھ گئے اور بڑھیا سنار کی دکان پر پہنچ گئی۔کیا چاہیے اماں تمہیں؟ سنار نے پوچھا۔میں اپنے دو نوکر بیچنا چاہتی ہوں وہ سامنے بیٹھے ہیں۔نوکروں کی تو ہمیں بہت ضرورت ہے۔سنار نے کہا۔ بولو اماںکیا قیمت ہے ان دونوں کی؟دس ہزار روپے۔ بڑھیا نے کہا اور بات طے ہو گئی۔میں نوکروں سے پوچھ لوں کہ ان میں سے ایک بکنا چاہتا ہے یا دونوں؟ بڑھیا نے کہا اور پھر بلند آواز سے پوچھنے لگی۔ بیٹاایک بیچوں یا دونوں؟ادھر سے جواب ملا۔ اماںدونوں بیچ دے۔ ایک کو کہاں رکھے گی؟بڑھیا نے دونوں ٹھگوں کو سنار کے ہاتھ بیچ دیا اور ان کے پاس آ کر کہنے لگی۔

بیٹا! تم یہیں بیٹھو۔ میں تمہارے لیے کھانا لے کر آتی ہوں۔کچھ مٹھائی بھی لیتی آنا اماںدونوں نے کہا اور بڑھیا اچھی بات کہہ کر چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد سنار نے انہیں بلایا اور کام کرنے کا حکم دیا تو ان کو حقیقت معلوم ہوئی اور انہوں نے کہا۔ارے وہ تو ہماری بھی نانی نکلی۔قارئین بڑھیا کون ہے اور ٹھگ کون اس کا نتیجہ میں نے سننے والے پر چھوڑ دیا تھا اور یہ کہانی سنانے کے بعد نتیجہ آپ پر چھوڑتا ہوں لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ آج کل ہم بھی نانیوں اور ٹھگوں میں گھر چکے ہیںجو صورتحال اس وقت چل رہی ہے اس میں کچھ لوگ ہماری نانی یا نانے بن چکے ہیں اورکچھ ٹھگ جو بہت کچھ لے کر چلے گئے لیکن اس پر بھی قناعت کرنے کی بجائے پھر نانی یا نانے بننے کے چکر میں ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہم ہوش سنبھالنے کی بجائے اب بھی زندہ باد اور مردہ باد کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایک باشعور قوم بنائے آمین۔

Sultan Hussain

Sultan Hussain

تحریر: سلطان حسین