زندگی میں علماء کرام کی ضرورت

Khiral Quran

Khiral Quran

تحریر: مولا نا رضوان اللہ پشاوری
خیرالقرون اوراس کے قریبی ادوارمیں جب کوئی تجارتی قافلہ تجارتی غرض سے سفر شروع کرتاتو دیگر ضروری سازوسامان کے علاوہ وہ کسی فقیہ اورمعاملہ شناس عالم ِدین کوبھی ضرورساتھ لے جانے کی فکرکرتے ، تاکہ سفرکے دوران وہ کسی حرام معاملے میں پڑکراپنی کمائی کو حرام نہ بنائیں۔ علماء ِکرام کی یہ ضرورت سیاسی وفد یاصلح مصالحت کی غرض سے جانے والی جماعت میں اس سے بھی زیادہ محسوس کی جاتی،بلکہ ان حضرات کے بغیر کوئی بھی اہم جماعت یاوفدادھوری سمجھی جاتی تھی۔

آج کل عوام کی زبان پر یہ ایک بات بہت چل پڑی ہے کہ علمائِ کرام کیوں میدانِ سیاست میں آگئے ہیں؟ان کا کام تو بس صرف منبرومحراب کو سنبھالنا ہے۔ان کی یہ بات سوفیصد غلط ہے کہ علمائِ کرام توبس صرف منبرومحراب کو سنبھالنے والے ہیں،بلکہ علمائے کرام کاکام ہے” لوگوں کو راہِ راست دکھانااورخیرکی طرف ان کی رہنمائی کرنا”اور یہ کام جس طرح منبرومحراب سے ہوسکتا ہے،بالکل اسی طرح پارلیمنٹ کے ایوان سے بھی ہوسکتا ہے۔

علماء ِ کرام کا وجود میدان ِسیاست میں صرف اس زمانے کی بات نہیں ہے، بلکہ چودہ سوسال پہلے کی تاریخ پر اگر نظر ِعمیق دوڑائی جائے تو وہاں پر بھی رہنمائی کافریضہ انجام دینے والے حضراب بھی اُس وقت کے علماہی تھے۔نزول ِوحی کے دور میں تو خود بنفس ِنفیس آقائے نامدار ،فخر موجودات ،ہادی ٔعالم، محمد مصطفی ،احمد مجتبیٰ،محمد عربی ۖ موجود تھے،جو خود ہی سیاسی اور مذہبی امور سرانجام دیا کرتے تھے ،اسی طرح سفارتی اور مصالحتی خط وکتابت بھی خوداُن ہی کی نگرانی میں ہوتی تھی،جنگی دستوں کی تشکیل اورمیدانِ کارزار میں صف بندی بھی خود کرلیا کرتے تھے۔

Madani life

Madani life

مدنی زندگی کے آخری دور میں تقریباًیہ تمام امور اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بانٹ دیئے اور وفات کے بعد بھی یہی طریقہ کار جاری تھا،پھر خلفائِ راشدین کے دور میں صحابہ کرام کی ایک مجلس شوریٰ قائم کر لی گئی، جس میں ہر اہم کام کا مشورہ ہوا کرتا تھا،لیکن خلفاء ِراشدین کے دور کے بعد جب نظام ِخلافت میں ملوکیت نے دراڑیں ڈالنا شروع کر دی اور امورِ سیاست چلانے والے خلفانے اپنی مرضی سے امور ِخلافت چلانا شروع کیا تو علماء ِوقت کی ذمہ داری بدل گئی۔

بادشاہوںاورعیاش شہزادوں کے ہاتھوں شریعت ِاسلامی میں سرکشی اورحدودسے تجاوزکاراستہ روکنااب اُن کی اہم ذمہ داری تھی،جنہوںنے انہیں ہر معاملے میں اپنی مرضی لاگوکرنے کی اجازت نہیں دی، بلکہ بدعات واختراعات پر انہیں روکتے اور ٹوکتے رہے ۔ اگرکہیںذرا بھی کتاب وسنت کی مخالفت نظر آتی تو ان کے خلاف آوازِحق بلند کرتے تھے ،حجاج بن یوسف جیسے سفاک گورنرکے سامنے علماء ِوقت کی حق گوئی کی داستانیںآج بھی معروف ومشہورہیں۔

یہی علمائے کرام ہیں، جن کے بغیر ہماری دنیاوی زندگی بھی ناقص اورادھوری ہے اور دینی معاملات اور امور تو ادھورے ہی رہیں گے۔ اگر یہ علمائِ کرام وطن ِعزیزکے پارلیمنٹ میںنہ ہوتے تو آج اسلام کے نام پربنائے گئے اس مقدس سرزمین پرہم اپنے گھروں میں نمازپڑھنے کے پابند ہوتے ،کیونکہ سیکولرذہنیت رکھنے والے بعض لیڈرتو ویسے بھی مدارس اور مساجد کو ختم ہونے کے درپے ہیں ۔

Azan

Azan

چندروز پہلے ایک اخبارمیںلکھا تھا کہ پشاور سمیت صوبہ بھر میں نئے مدارس کے قیام پر پابندی عائد کی جارہی ہے، جبکہ مساجد میں لائوڈ سپیکر پر اذان صرف جمعہ کے خطبے تک محدود رکھی جائے گی اور نئے مساجد کے قائم کرنے کے لیے حکومت سے این۔او۔سی حاصل کرنی ہوگی، بغیر این۔او۔سی کے کسی کو نئی مسجد قائم کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ان حضرات کوتمام خرابیاںصرف مساجدومدارس میں نظرآرہی ہیں،ان کواندرون ِملک این ۔جی ۔اوز اوربیرون ِملک ایجنسیوں سے کوئی گلہ شکوہ نہیں،اگرک ہیںاِن کا کوئی کام پسندنہ آئے تو زیادہ سے زیادہ اقوام ِمتحدہ اورامریکہ کوان کے بارے میں گلہ شکوہ کرکے دل ہلکاکرلیتے ہیں۔ عملی کاروائی کے لیے بس مدارس ہی ہدف اول ہے۔

یہ بات بھی کسی طرح مناسب نہیںکہ کوئی یہ کہہ دے کہ سیاست ہی دین اور اسلام ہے۔ یہ بات شائد مبالغہ آرائی ہے ،لیکن یہ بات عین ِحقیقت ہے کہ سیاست دین اور اسلام کا ایک اہم جزء ضرور ہے ،لہذا جب سیاست دین کاجزء ہونایقینی ہے تو پھرعلماء ِکرام کااس میدان میں موجودرہ کرجدیدجمہوریت کی خرابیوں کا ازالہ کرکے شرعی طریقے کی طرف رہنمائی کرنابھی دین ہی کاکام ہے۔ بے شک بہت سے لوگ اس وقت دین اوراس ملک کی خدمت میں مصروف ہیں،لیکن جوعلماء ِکرام سیاست کے میدان میں مسلم تہذیب وثقافت کی بقاکے لیے جنگ لڑرہے ہیں،اُن کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کسی طرح بھی ایک صحیح مسلمان کاوطیرہ نہیں۔اللہ تعالیٰ ان علمائِ کرام کو عمر دراز نصیب فرما کر حق گوئی کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

Rizwan Peshawari

Rizwan Peshawari

تحریر: مولا نا رضوان اللہ پشاوری