نواز شریف

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : حفیظ خٹک
تین بار منتخب ہونے والے وزیراعظم مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کو متعدد اعزازات حاصل ہیں۔ ضیاء الحق مرحوم کی مکمل آشیر باد کے بعد وزیر اعلی پنجاب کی حیثیت سے سیاسی ذمہ داریاں شروع کرنے والے نواز شریف نے اب تک ملک و قوم کیلئے اپنی نوعیت کی منفرد خدمات سرانجام دیں ہیں۔ وطن عزیز میں ان کی محنتوں کے ہی نتیجےمیں آج ان کی جماعت ملک کی سب سےبڑی سیاسی جماعت کی صورت میں موجود ہے اور ملک کی تاریخ میں تیسری بار مرکزی حکومت اور اس سے زائد بار پنجاب میں حکومت بنانے اور کرنے کی روایات قائم کرچکی ہے۔ تاحال ان کی حکومت مرکز و پنجاب میں جاری ہے۔ نواز شریف کی وزیر اعظم کی حیثیت سے کسی بھی حکومت کومدت پوری کرنے کا موقع نہیں مل پایاہے جس پر وہ گلہ مند ہیں اور تاحیات رہیں گے۔

ماضی میں ان کی دوسری مرکزی حکومت کا دور تھا کہ جب بھارت نے ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان سے اپنی برتری دیکھانے کے ساتھ اسے دبائو میں لانے کی کوشش کی۔ بھارت کے متعلق پاکستان کا ہر محب وطن شہری یہ جانتا ہے کہ اس نے آج تلک پاکستان کو قبول نہیں کیااور قیام سے اب تک اس کاوش میں ہے کہ پاکستان کو شدید نقصانات پہنچا کر اسے واپس ہندوستان کی حکومت میں شامل کرے اور اس طرح سے اسکا اکھنڈ بھارت کا خواب پورا ہو۔ ہرمحب وطن پاکستانی کی یہ خواہش اور کوشش رہے گی کہ بھارت کے اکھنڈ بھارت کا خواب کھبی پورا نہیں ہو اور اس کے ساتھ پاکستان دنیا میں ہر طرح سے عظیم سے عظیم تر ملک بنے اور پاکستان بنانے کیلئے جس قدر قربانیاں دیں گئیں ان مقاصد کو حاصل کریں۔

بھارت نے جب ایٹمی دھماکہ کیا تو اس وقت پاکستان میں نواز شریف کی ہی دوسری حکومت تھی،اس وقت عوام ہی کی نہیں امت مسلمہ کی شدید خواہش پر پاک فوج اور حکومت نے مل کر ایٹمی دھماکہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس دھماکے کے بعد بھارت کو بھی ہوش آیا اور اس کے ساتھ ہی دنیامیں پاکستان ساتویں اور امت مسلمہ کی پہلی ایٹمی قوت بن کر سامنا آگیا ۔ اس دھماکے کے بعد پاکستان کے دشمنوں کو بھی اس بات کااحساس ہوگیا کہ اب پاکستان پر حملہ اور حملے سے متعلق سازشیں کرنا آسان نہیں رہا۔ نواز شریف کو اس بات کا اس تاریخی اقدام کا زعم ہے کہ انہوں نے ایٹمی دھماکہ کیا۔ اس دھماکے کے علاوہ بھی نواز شریف نے متعدداقدامات کئےجنہیں قوم یاد رکھتی ہے اور رکھے گی۔

نواز شریف کو پہلی بار مرکزی حکومت بنانے کے بعد پیپلز پارٹی سیاسی حریف کے طور پرملی ، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے سامنے بھی اگر کوئی جماعت مقابلے کی حیثیت میں تھی تو وہ یہی مسلم لیگ (ن) ہی رہی۔ دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کوسیاسی حریف کی طرح سےرکھا اور یہ رکھائو میثاق جمہوریت کی صورت میں زوال پذیر ہوا۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے یہ طے کر لیا کہ ایک بار ایک جماعت حکومت کریگی اور دوری بار دوسری جماعت ۔ طویل مدت تک سلسلہ یونہی چلتا رہا اب یہ اک الگ معاملہ تھا کہ دونوں سیاسی جماعتوں کی حکومتوں کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔ کھبی مرحوم غلام اسحق خان اور کھبی مرحوم فاروق لغاری مدت پوری کرنے کے معاملے میں آگے آئے تو کھبی پرویز مشرف کی صورت میں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ غرض ملک کی تاریخ میں کسی منتخب حکومت کو اپنی پانچ سال کی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں ملا۔ پرویز مشرف کے دور کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کو پہلی بار اپنی مدت پوری کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ سابق صدر آصف علی زرداری جنہیں نواز شریف مختلف مقدمات میں میں برسوں جیل میں رکھ چکے تھے انہوں نے صدر کی حیثیت سے اپنی صدارت کے پانچ سال پورے کئے اور بعد ازاں انتخابات کراکے نواز شریف کو نئی حکومت بنانے کی سعادت دی۔ 2013تک ملک میں سیاسی لحاظ سے متحدہ قومی موومنٹ ملک کی تیسری بڑی جماعت تھی مرکز میں حکومت بنانے والوں کو ان کی حمایت کی ضرورت رہا کرتی تھی ۔ تاہم وہ جماعت ان دنوں جس دور سے گذر رہی ہے اسے مورخ ضرور اپنے تحریرکی زینت بنائے گا۔

سابقہ انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف تیسری بڑی سیاسی قوت کی صورت میں سامنے آئی، انہوں نے صوبہ خیبر پختونخواہ میں جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر اپنی صوبائی حکومت بنائی جو کہ تاحال کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان، کہ جنہوں نے ملک کا نام کھیل کی دنیا میں عالمی کرکٹ کا کپ جیت کر روشن کیا اور اس کے ساتھ کینسر ہسپتال بناکر انسانیت کی خدمت کے عزم کو آگے بڑھایااور تاحال وہ کینسر کے ہسپتال معاشرے میں کامیابی کے ساتھ آگے کی جانب بڑھ رہے ۔ لاہور میں پہلا شوکت خانم بنانے کے بعد دوسرا ہسپتال پشاور میں بنایااور اب شہر قائد میں بھی کینسر کا تیسرا ہسپتال بننے جارہاہے۔ ان خدمات کو ایک جانب رکھتے ہوئے عمران خان نے اپناسیاسی سفر تحریک انصاف کے نام سے سیاسی جماعت بنا کر شروع کیا ۔ ابتداء سے 2013تک انہیں چند نشستوں سے زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن 2013کے انتخابات میں انہیں عوام نے توقعات کے برعکس ووٹ دیئے جس کے بعد ان کی جماعت ملک میں تیسری جماعت کی صورت میں سامنے آگئی۔ اسی جماعت کی سرگرمیوں کے باعث نواز شریف کو اپنی تیسری حکومت میں پیپلز پارٹی سے کہیں زیادہ تحریک انصاف کی صورت میں حزب اختلاف ملی۔ انتخابات میں دھاندلی کے نقطے کو اٹھا کر اسلام آباد میں 120زائد دنوں کا دھرنا دیا جس سے نواز شریف کو سخت تکلیف کے ساتھ وقت کو گذارنا پڑا۔ سانخہ پشاور کے بعد عمارن خان نے دھرنا ختم کردیا تاہم اسکے بعدپانامہ لیکس کا معاملہ آگیا جس نے دنیا کے متعدد ممالک میں تبدیلیاں رونما کیں ۔ اسی پانامہ لیکس میں نواز شریف کا بھی نام آیا جس کو تحریک انصاف نے توجہ کے ساتھ اٹھایا اور جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ، سپریم کورٹ نے تفتیش کے بعد تاریخ ساز فیصلہ کیا اور اسی فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف کو وزارت عظمی سے مستعفی ہونا پڑا۔

نواز شریف نے عدالت کے حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے استعفی تو دیدیا تاہم اس کے بعد اب تک وہ جس روش پر چل رہے ہیں وہ قعطی نامناسب ہے۔ ان کی موجودہ روش کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سوال رکھ کر کہ کیا نواز شریف جو یہ صدا لگارہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالااور اس کے ساتھ فوج اور عدالت کے خلاف عوام میں اشتعال پیداکرنے کی کوشش کررہے ہیں، کیا یہ سب اقدامات درست ہیں یا نہیں؟ اس ایک سوال کا جواب لینے کیلئے اسکولوں کے بچوں سے لیکر کالج و یونیورسٹی کے طلبہ تک اور ان کے ساتھ ہی مختلف شعبہ زندگی کے افراد سے سوال پوچھاگیا اور اک سروے کی صورت میں جو جوابات آئے ان کا لب لباب یہ ہے کہ نواز شریف کو اپنے لئے، اپنی اولاد کیلئے ، اپنے خاندان کیلئے ، پنجاب کیلئے اور سب سے بڑھ کر اس ملک کیلئے اب سیاست کو چھوڑ دینا چاہئے ۔ انہیں اب ریٹائرڈ ہوجانا چاہئے۔ نوازشریف کو ایک ریٹائرڈ فوجی کی طرح، سرکاری و نیم سرکاری ملازم کی طرح اپنی زندگی کے بقیہ ایام کو گذارناچاہئے۔ دینی مزاج رکھنے والے عوام کا یہ بھی مشورہ تھا کہ انہیں اب تبلیغ میں ہی اپنی بقیہ زندگی کے ایام کو گذارنا چاہئے۔ اپنی بیٹی مریم کو ساتھ قعطی نہیں رکھنا چاہئے، اس مریم کے حوالے سے تو انہیں اپنا ایک وعدہ یاد رکھنا چاہئے جو کہ انہوں نے امریکہ کی جیلوں میں برسوں سے قید قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بیٹی مریم سے کیا تھا ۔ اس وقت کہ جب انہوں نے مریم کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بھی میری مریم کی طرح ہےاور میں بہت جلد اس کی ماں کو امریکہ کی قید سے رہائی دلواکر باعزت انداز میں واپس لائونگا۔ یہ وعدہ انہوں نے قوم کی بیٹی کی والدہ عصمت صدیقی، بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور بیٹے احمد تک سے بھی کیا تھا لیکن نواز شریف نے وزارت سنبھالنے کے بعد ان باتوں کو ان وعدو ں کو بھلادیا۔ وہ عافیہ آج بھی امریکہ کی قید میں ہے اور کسی ابن قاسم کا انتظارکررہی ہے۔ نواز شریف کو اس وعدے کا بھی حساب دینا ہوگا۔ ہوناتو یہ چاہئے کہ نواز شریف ملک کے موجودہ وزیراعظم جو کہ ابھی تک نواز شریف کو ہی اپنا وزیر اعظم مانتا ہے، انہیں حکم دیں کہ وہ قوم کی بیٹی کی رہائی کیلئے حقیقی اقدامات کریں۔

Supreme Court

Supreme Court

نواز شریف، ساری زندگی اپنے کاروبار کو آگے بڑھانے کے ساتھ پنجاب اور مرکزمیں حکومت کرنے کے بعد بھی ان دنوں جو اقدامات کررہے ہیں وہ قعطی مناسب نہیں ہیں۔ اک وفادار پاکستانی حکمران کی حیثیت سے نوازشریف کو چاہئے کہ وہ سپریم کورٹ کہ جس پر انہوں نے ماضی میں حملہ بھی کیا تھا، اسی سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے سرکو خم کریں اور عوام کو فوج اور عدلیہ کے خلاف نہ ابھاریں۔ عدلیہ کو اپنا کام احسن انداز میں کرنے دیں اور اس کے ساتھ ہی فوج جس کا کام ملک کی حفاظت کرناہےاور یہ فوج طویل مدت سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں برسرپیکار ہے اسے کسی بھی صورت اندرونی مصائب سہنے کا موقع نہ دے۔ پاک فوج پر پوری قوم کو ناز ہے اور عوام عدلیہ کے ساتھ ہے۔ اسلئے بھی نواز شریف کو چاہئے کہ اب بس کردیں اور خود سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرکے سیاست سے الگ ہوجائیں، یہی ان کیلئے بہتر ہے اور ان کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کیلئے اور سب سے بڑھ کر پاکستان کیلئے بھی۔۔۔۔

تحریر : حفیظ خٹک