اوباما بیرون ملک کارروائیوں کی اجازت کیسے دیتے؟

Obama

Obama

واشنگٹن (جیوڈیسک) کئی سال تک صیغہ راز میں رہنے کے بعد حال ہی میں سامنے آنے والی ایک اہم ترین دستاویز میں اس بات سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما بیرون ملک دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کی اجازت کیسے دیتے تھے۔

خاص طور پر ایسے ملکوں میں جہاں جنگ نہیں ہوتی اور نہ ہی وہاں امریکی فوج موجود ہوتی، اس کے باوجود صدر اوباما وہاں پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کی اجازت دیتے۔

خفیہ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لیے انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے متعین کردہ اہداف پر حملوں کی منظوری صدر کے لیے ناگزیر ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سامنے جب بھی کسی کارروائی کے لیے کوئی ٹارگٹ رکھا گیا تو انہوں نے وہاں حملے کی منظوری دی۔

چند ایک واقعات ایسے بھی ہوں گے جہاں صدر کی طرف سے حملے کی اجازت نہ ملی ہو۔بیرون ملک دنیا کے کسی بھی مقام پر ہونے والے حملوں میں ڈرون اور دیگر ہھتیاروں کے ذریعے حملے بھی شامل ہیں۔ ڈرون سمیت جتنے حملے اب تک ہوچکے ہیں انہیں صدر امریکا کی طرف سے باقاعدہ منظوری دیے جانے کے بعد عمل میں لایا گیا تھا۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ بیرون ملک بغیر جانچ پڑتال کے بڑے پیمانے پر کیے گئے حملوں اور صدر کی طرف سے حملوں کی منظوری کے معاملے پرامریکا کے اندر اور باہر نہ صرف ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے بلکہ اوباما کی پالیسی پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔

تنقید کے دو پہلو ہیں۔ اول یہ کہ بیرون ملک کی جانے والی تمام عسکری کارروائیوں میں کہیں نا کہیں انسانی حقوق کی پامالیاں ہوئی ہیں اور بے گناہ شہری مارے جاتے رہے ہیں۔

دوسرا پہلو دوسرے ملکوں میں موجود امریکی باشندوں کو دہشت گردی کے شبے میں ہلاک کرنے کے لیے کارروائیاں ہیں کیونکہ امریکی دستور کسی امریکی شہری کو ماورائے عدالت قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ صدر اور خفیہ ادارے ماورائے قانون کسی بھی امریکی شہری کو کیسے ہلاک کر سکتے ہیں۔

دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ نظریہ ضرورت کے تحت بیرون ملک کی جانے والی عسکری کارروائیوں کی امریکی عدالتوں کی طرف سے بھی توثیق کرائی گئی تھی۔‘‘استعمال کی دلیل’’ کا مطلب یہ لیا گیا کہ عدالتوں کے سامنے ڈرون طیاروں کے ذریعے حملوں کی اجازت کا معاملہ پیش کیا گیا۔ عدالتوں کی طرف سے منظوری کے بعد صدر سے منظوری لی گئی۔ البتہ کچھ واقعات ایسے بھی ہیں جن میں صدر کی منظوری بھی حاصل نہیں کی گئی۔

ڈرونز

18 صفحات پر مشتمل ‘پلے بک’ کئی سال تک امریکا میں تیاری کے بعد بھی صیغہ راز میں رہی۔ تاہم سنہ 2013ء کو واشنگٹن سے اسی دستاویز کا ایک مختصر خلاصہ جاری کیا گیا جس میں یہ تسلیم کی گئی کہ امریکا بیرون ملک محدود آپریشن اور سرجیکل طرز کی کارروائیوں کے لیے بغیر پائلٹ کے ڈرونز طیارے استعمال کرتا ہے۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ بیرون ملک کی جانے والی عسکری کارروائیوں کو امریکی انتظامیہ کے سامنے پیش کیاجاتا ہے۔ حکومت کی منظوری کے بعد کوئی بھی آپریشن کیا جاتا۔

پالیسی دستاویز یہ کہتی ہے کہ ” غیرمعمولی حالات کی عدم موجودگی میں ایک اعلیٰ قدری اہمیت کے حامل ہدف پر یہ یقین کرلینے کے بعد ڈرون حملہ کیا جائے گا کہ اس میں کوئی اور عام شہری ہلاک نہیں ہوگا”۔اس میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکا کو ڈرون حملے کرتے وقت کسی دوسری قوم کی خود مختاری کا احترام کرنا چاہیے۔

اس دستاویز میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ بیرون ملک کی جانے والی کسی بھی کارروائی کو عالمی قوانین کے مطابق ہونا چاہیے۔ بالخصوص ڈرونز کے ذریعے کی جانے والی عسکری کارروائیوں کے نتیجے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات سے بچنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

واضح معیارات

امریکا کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نیڈ پرائس نے دعویٰ کیا ہے کہ پی پی جی سے شہریوں کے تحفظ کی کوشش کی جاتی ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر کسی جگہ یقین کی حد تک ہدف موجود ہو اوریہ کہ غیر لڑاکا افراد ہلاک نہیں ہوں گے تو پھر ہی ڈرون حملہ کیا جاتا ہے اور یہی ایک اعلیٰ معیار ہے جو ہم مقرر کرسکتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ صدر اوباما یہ زور دے چکے ہیں کہ ”امریکی حکومت کو انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں اور ان کے نتائج کے معاملے میں جہاں تک ممکن ہو ،امریکی عوام کے ساتھ شفاف ہونا چاہیے۔

مسٹر نیڈ پرائس نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ”ہمارے انسداد دہشت گردی کے اقدامات مؤثر اور قانونی ہیں۔ان کے قانونی جواز کا بہترین مظہر یہ ہے کہ عوام کو ان اقدامات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ باخبر رکھا جاتا ہے اور دوسری اقوام کی پیروی کے لیے بھی ایک معیار مقرر کیا گیا ہے۔

پی پی جی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی مشتبہ دہشت گرد پکڑا جاتا ہے تو پھر اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جانا چاہیے۔اس میں اس بات پر زوردیا گیا ہے کہ کسی زیر حراست شخص کو کسی بھی صورت میں امریکا کے کیوبا میں واقع جزیرے گوانتا نامو بے میں قائم فوجی جیل میں منتقل نہیں کیا جائے گا۔واضح رہے کہ صدر اوباما اپنے وعدے کے باوجود اپنے آٹھ سالہ دور حکومت میں اس بدنام زمانہ حراستی مرکز کو بند کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اوباما انتظامیہ نے گذشتہ ماہ بتایا تھا کہ 2009ء سے 2015ء تک جنگ زدہ ملکوں کے علاوہ دوسرے غیر جنگی علاقوں پاکستان، افغانستان، یمن ، صومالیہ اور لیبیا میں کل 473 ڈرون حملے کیے گئے تھے۔

امریکی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ بغیر پائیلٹ جاسوس طیاروں کے ان حملوں میں 64 سے 116 تک عام شہری مارے گئے تھے۔2581 جنگجو ہلاک ہوئے تھے لیکن ناقدین مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ امریکی حکومت ڈرون حملوں میں مارے گئے شہریوں کی تعداد کو گھٹا کر پیش کررہی ہے اور شہریوں کی اس سے کہیں زیادہ تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔