نظریہ پاکستان پوری قوم

 Quaid-e-Azam

Quaid-e-Azam

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
یہ 1941 ء کا واقعہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح مدراس میں جلسہ کرکے واپس آرہے تھے کہ ایک گاؤں میں لوگ ان کے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور نعرے لگا رہے تھے. ان میں ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا جو بڑی معصومیت سے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے نعرے لگا رہا تھا. قائداعظم نے جب اس بچے کو دیکھا تو اس کو اپنے پاس بلایا اور اس کو پوچھا بیٹا پاکستان کا مطلب جانتے ہو تو وہ کہنے لگا کہ پاکستان کا مطلب تو آپ لوگ جانتے ہوں گے، مجھے تو اتنا پتا ہے کہ جہاں پر مسلمان آباد ہیں وہ پاکستان ہوگا. قائد نے اس کا جواب سن کر اپنے ساتھ موجود پریس والوں کو کہا کہ گاندھی اور نہرو کو جا کر بتا دو کہ تم پاکستان کا مطلب نہیں سمجھتے مگر مسلمانوں کا بچہ بچہ پاکستان کا مطلب سمجھتا ہے ۔قائداعظم محمد علی جناح سے اکثر پوچھا جاتا کہ آپ کیوں اس ملک کو تقسیم کرکے ایک علیحدہ ملک لینا چاہتے ہیں تو وہ جواب دیتے کہ ہم کوئی زمین کا ٹکڑا نہیں چاہتے بلکہ ہم تو ایک ایسی تجربہ گاہ چاہتے ہیں جہاں پر ہم اسلام پر آزادی سے عمل پیرا ہوسکیں. وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ قومیت کی جو بھی تعریف کی جائے اس کی رو سے مسلمان اور ہندو دو علیحدہ قومیں ہیں اور یہ کبھی بھی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔

پاکستان 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشہ پر ابھرا ۔ پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریے پر کھی گئی ۔ دو قومی نظریہ دراصل یہ ثابت کرتا ہے کہ دو قومیں ہیں ، ایک مسلم اور دوسری غیر مسلم ، برصغیر پاک و ہند میں اسی روز دو قومی نظریہ پیدا ہو گیا تھا جب صدیوں پہلے جب پہلا آدمی مسلمان ہو گیا تھا۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے میں بہت بڑا کردار شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا بھی تھا جنہوں نے اپنی شاعری سے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگا کرمسلمانوں کے دلوں کو اک ولولہ تازہ دیا اور آزادی کی طلب پیدا کی۔. 1930ء میں الہ آباد کے جلسے میں ڈاکٹرعلا مہ محمد اقبال نے اپنے صدارتی خطبے میں مسلمانوں کے لیے برصغیر کے اندر ایک علیحدہ وطن کا تصور دیا۔ڈاکٹرعلا مہ محمد اقبال نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ برصغیر میں جہاں جہاں مسلمان اکثریت کے ساتھ آباد ان علاقوں کو ملا کر ایک علیحدہ ملک بنا دیا جائے. ڈاکٹرعلا مہ محمد اقبال کے اس تصور سے مسلمانوں کے دل و دماغ میں اپنے لئے الگ وطن کی محبت پیدا ہوگئی۔ اور انہوں نے اس منزل کو حاصل کرنے کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگادی 1935ء میں چودھری رحمت علی نے اس تصور کو پاکستان کا نام دے دیا.چوہدری رحمت علی نے الگ وطن کے مطالبے کو ” پاکستان کا نام کیا دیا ” ہر مرد و زن بچہ بوڑھا کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا. بٹ کر رہے گا ہندوستان لے کر رہیں گے پاکستان. یہ تحریک آزادی پاکستان کے عروج کا وقت تھا.سارے برصغیر کے مسلمانوں کی زبان پر صرف پاکستان کا نعرہ اور مطالبہ تھا۔اللہ اللہ کر کے آخر . 23 مارچ 1940ء کا وہ دن آن پہنچا کہ جس دن لاہور کی فضائیں جوشیلے نعروں سے گونج رہیں تھیں. اور لاہور کے منٹو پارک کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ تل دھرنے کو بھی جگہ نہیں تھی.

لاکھوں انسانوں کا ٹھاٹھے مارتا سمندر اپنے قائد کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے لاہور میں جمع ہوئے تھے سب کی زبانوں پر اصغر سودائی کا دیا ہوا نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ. تلواروں کے پہرے میں جناب بابائے قوم محمد علی جناح کو سٹیج پر لایا گیا. ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کے خواب کو عملی جامہ پہناتے ہوئے شیر بنگال مولوی فضل الحق نے قرارداد پیش کی اور لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر ایک علیحدہ وطن پاکستان کا مطالبہ کیا. ہندو پریس نے طنزیہ طور پر اس قرارداد لاہور کو قرارداد پاکستان کا نام دیا.مگر خالق کائنات نے اس کو واقعی قرارداد پاکستان ہی بنا دیا تھا۔ اور یہی پاکستان کے قیام کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اس قرارداد کا منظور ہونا تھا کہ ہندوؤں میں صف ماتم بچھ گئی۔

ان کو اپنے خواب اکھنڈ بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے نظر آنے لگے. کیونکہ وہ تو آس لگائے بیٹھے تھے کہ جب انگریز یہاں سے چلے جائیں گے تو ہم بلا شرکت غیرے برصغیر کے مالک ہوں گے. اس لیے انہوں مسلمانوں کو پاکستان سے باز رکھنے کے لیے پہلے تو لالچ دیے مگر پھر دھمکیوں پر اتر آئے اور ان دھمکیوکے بعد اپنی اصلیت دیکھانا شروع کردی ۔برصغیر کے مختلف شہروں میں فسادات کی آگ بڑھکا کرلاکھوں کے حساب سے مسلمانوں کو شہید کردیا گیا۔لاکھوں عورتوں کے گھر اجڑ گئے۔ لاکھوں ماؤں بہنوں کی عزت کو تار تار کیا گیا۔ دریاؤں میں پستانوں کو کاٹ کر بہہ دیا جاتا۔ شیر خوار بچے اور دودھ پیتے معصوم بچوں کو ماؤں کے سامنے بے دردی سے زبح کیا جاتا۔ کنواری لڑکیوں کو اغوا اور حرام کاری کے لئے استعمال کیا جاتا ۔ لاکھوں دکانوں کو آگ کے شعلوں کے حوالے لوٹ مار کے بعد کر دیا جاتا۔ مسلمانوں کا خون ندی نالوں کی طرح بہتا رہا مگر یہ مظالم مسلمانوں کو ان کے رستے سے ہٹا نہ سکے وہ مسلسل آزدی کی تحریک کو آگے بڑھاتے چلے گئے مسلمانوں کی عظیم جدوجہد اور قربانیوں کے سامنے انگریزوں اور ہندوؤں کی مشترکہ سازشیں دم توڑ گئیں، اللہ تعالی نے مسلمانوں پر اپنا انعام کیا اور 14 اگست 1947ء کو پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تو ساری مسلمان قوم سجدہ ریز ہوگئی مگر قدرت کو ابھی اس کے مزید امتحان لینے باقی تھے۔

جیسے ہی پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا، ہندوؤں نے دوسری قوموں کو ساتھ ملا کر اپنے علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا جس پر 50 لاکھ سے زائد مسلمان اپنا گھربار، کاروبار، جائیداد اور سب کچھ چھوڑ کر بیسروسامانی کی کیفیت میں نکل کر پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے. یہ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تھی. مگر ہندو بلوائی اس پر بھی خوش نہ ہوئے بلکہ انہوں نے ہجرت کرکے نکلنے والے مسلمانوں کا بھی قتل عام شروع کردیا. مسلمان بہو بیٹیوں کی عزتوں کو ان کے گھر والوں کے سامنے تارتار کیا جاتا. کتنے باپوں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی جواں سال بیٹیوں کے گلے گھونٹ کر یہ کہا کہ ہم تمہں مرتے ہوئے تو دیکھ سکتے ہیں مگر کسی ہندو کے ہاتھوں سر بازار عزت کی دھجیاں اڑتے نہیں دیکھ سکتے. مسلمانوں عورتوں سے ان کے شیرخوار بچوں کو چھین کر فضا میں اچھالا جاتا، نیچے کرپان کردیتے، بچہ اس پر گرتا تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے اور وہ ٹکڑے اس کی ماں کی طرف پھینک کر کہتے لو پاکستان جا رہی ہو تو پاکستان کے لیے تحفہ لیتی جاؤ. مسلمانوں کے گاؤں کے گاؤں نذر آتش کردیے گئے. مہاجرین کو لے کر آنے والی ٹرینوں کو روک کر ان پر حملہ کیا جاتا اور پوری پوری ٹرین کے مسلمان مسافروں کو قتل کردیا جاتا. الغرض پندرہ لاکھ سے زائد مسلمان اس پاک دھرتی کے نام پر قربان ہوگئے. جب کوئی بچتا ہوا اپنا خاندان تک قربان کرکے پاک سرمین تک پہنچ جاتا تو پاک مٹی پر وہیں سجدہ ریز ہو جاتا اور اپنے سارے دکھوں اور مصیبتوں کو بھول جاتا. لا الہ الا اللہ کی بنیادپر بننے والا دیس ہمیں کوئی پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملا بلکہ قربانیوں کی ایک عظیم داستان ہے۔ اور یہ قربانیاں دردناک عبرت ناک اور نہ بھولنے والی تھیں.

آج پھر 14 اگست 1947 والہ جزبہ جنون اور لگن کی ضرورت ہے تاکہ دشمن کو پتا چلے کہ جس طرح سے لاکھوں قربانیاں دے کر یہ وطن قائم ہوا تھا آج اس وطن کے استحکام کی خاطر پھر سے اسی طرح لا الہ الا اللہ اور نظریہ پاکستان کے لئے پوری قوم ایک ہے !

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا