​بے غیرتی اور بہادری میں فرق ہوتا ہے

Politics

Politics

تحریر : شیخ خالد زاہد
مضمون شروع کرنے سے پہلے مضمون کے عنوان میں شامل لفظ بے غیرتی لکھنے پر معذرت خواہ ہوں، کیونکہ میرا ادب اور میری تہذیب مجھے ایسے الفاظ کے استعمال سے باز رہنے کادرس دیتا ہے۔ دوسری معذرت اس لفظ کے باربار استعمال کئے جانے پر کر رہا ہوں۔ ہم نے پڑھا ہے کہ محبت لفظوں کی محتاج نہیں ہوتی یہ جتانے سے ہوتی اور اپنی وضاحت کرتی چلی جاتی ہے ۔ بلکل اسی طرح پاکستان کے حکمران کبھی بھی یہ نہیں کہتے کہ انہیں روپے پیسے سے محبت ہے مگر وہ اسے ہر ممکن اور ناممکن طریقیوں سے حاصل کر کے اس بات کو واضح کردیتے ہیں کہ انکی محبت کیا ہے جبکہ پاکستان سے محبت بلکہ عشق کے دعوے کرتے نہیں تھکتے۔ قول اور فعل میں تضاد یا ہم اہنگی انسان کے معتبر ہونے کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں تقریباً سارے ہی سیاست دان کسی نا کسی طرح سے بد عنوان (کرپٹ) ہیں، اگر کسی نے یہ کام خود نہیں کیا ہے تو اسکے خاندان والوں نے اسکا نام استعمال کر کے یہ ہار اس کے گلے کی زینت بنادیا ہے۔ برصغیر کے عوام تو بدعنوان یا کرپشن جیسے لفظ کو معنوی اعتبار سے سیاست کی سند تسلیم کرتے ہیں کیونکہ انہیں اسکے اصل معنی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، یہ بچارے بھوک کے مارے لوگ تو جے جے اور زندہ باد کے نعرے لگانے کیلئے اشرف المخلوقات میں شامل کئے گئے ہیں۔ ہمارے معزز حکمرانوں کی بہادری کا اندازہ اس بات سے لگالیں کے یہ اعلی عدلیہ اور دیگر قانون کی بالادستی کیلئے کام کرنے والے اداروں سے باقاعدہ چور ثابت ہونے کے باوجودبہت معزز بن کر عوام کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں اور آفرین ہے اس قوم پرجو انکے لئے سڑکوں پر نکل آتی ہے ، نعرے لگاتی ہے اور انکے حق میں ملک کو غیر مستحکم کرنے کیلئے تیار بھی ہوجاتی ہے۔

پاکستان میں سیاست ان لوگوں کیلئے ہے جو ب سے شروع ہونے والے دو لفظوں کے درمیان کسی قسم کی تفریق نہیں کرتے اور وہ دو الفاظ وہ ہیں جو مضمون کے عنوان میں شامل ہیں یعنی بے غیرتی اور بہادری۔ یہ بھی قدرت کا قانون ہے کہ بے غیرت وہاں بہادر ہوسکتا ہے جہاں ناتو قانون ہو اور نا ہی علم سے شناسائی۔ آخر کون غور کرے ؟ ٹیلی میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا جو کوئی بھی حقیقت سمجھانے کی کوشش کرے گا اس پر دوسروں سے ملے ہونے کا الزام داغ دیا جائے گا۔ اس الزام سے بچنے کیلئے اور اپنی روزی روٹی کو چلانے کیلئے ہم سب ہی بھیڑ چال چلنے پر مجبور ہیں۔ یقیناًسب ہی قانون و انصاف کی بحالی کے منتظر ہیں جب حق اور سچ کہنے کا خوف ختم ہوجائے گا اور بے غیرت اور بہادر میں فرق واضح ہوجائے گا لیکن ابھی ایسا وقت آنے میں کچھ وقت باقی ہے ۔ اس باقی وقت میں عوام میں حقیقی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ، عوام کو تعصب کے آہنی جنگلے سے نکالنا ہے اور یہ بھی جان جوکھوں میں ڈالنے سے کم نہیں ہے۔ آپ اپنی سی ایک کوشش کر کے دیکھ لیجئے ، یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ کم از کم ایک رات ہسپتال میں گزارنی پڑجائیگی۔

سچائی تجربے کی محتاج ہوتی ہے تو پھر گزشتہ کچھ سالوں نہیں، مہینوں نہیں بلکہ کچھ دنوں کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجئے آپ کو اس بات کا مطلب واضح ہوجائیگا، شرط یہ ہے کہ بغیر کسی طرفداری کے آپ ان اخبارات کا مطالعہ کرینگے۔ تفتیش اور تحقیق کے عمل سے گزر کر بدعنوان ہونے والے ابھی تک مجھے کیوں نکالا کا راگ آلاپ رہے ہیں یعنی باضابطہ بدعنوان ٹہرائے گئے لوگ پاکستان جیسے ملک میں (جس کا نام ہی پاک سے شروع ہوتا ہے )ایسے دندناتے پھرتے ہیں جیسے اشرافیہ کی قطار سب سے پہلے انکے کھڑے ہونے سے شروع ہوگی ، ان سے زیادہ بہادر اور نڈر کوئی نہیں ہے۔ آپ مولانا فضل الرحمان صاحب کو لے لیجئے ، اگر انکے نام کیساتھ مولانا نالکھاہوتا تو لوگ انہیں حرف عام میں کیا کچھ کہتے مگر یہ ملک کے معزز و محترم ہستیوں میں سے ایک کہیں مفاہمت کرانی ہو یا پھر کسی روٹھے کو منانا ہو یہ حکومت کے نمائندے بن کر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اپنے مشن میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔

پاکستان کرہ ارض پر وہ نایاب زمین کا ٹکڑا ہے جہاں ملزمان اور مجرموں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتی ہیں جہاں بدعنوانوں کے پروٹوکول کیلئے خصوصی انتظامات کئے جاتے ہیں اور تو اور ایسے لوگوں کو جن کا ٹھکانا جیل ہوتا ہے مگر جیل سے اسمبلی (جو کسی بھی جمہوری ملک کی ایک مقدس جگہ سمجھی جاتی ہے )کے اجلاس میں شرکت کیلئے لایا جاتا ہے اور تقریر کا موقع بھی فراہم کیا جاتا ہے، یہ پاکستان ہی ہے جہاں سابق صدر ہوں یا پھر افواج پاکستان کے سابقہ چیف سب سیاست کے تالاب میں ایک ساتھ تیر سکتے ہیں۔

ایک طرف تو ہمارے ملک کے بدعنوان سیاستدانوں کا بھرپور استحصال سماجی میڈیا پر ہوتا ہے اور ماضی میں لوگ جوتے پھینک پھینک کربھی اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے رہے ہیں، بدکلامی بھی کی گئی اور اگر یادداشت ساتھ دے تو شیر افگن نیازی صاحب کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے ۔ اب میاں صاحب جنہیں اس عدالتی نظام نے جس پر وہ تیسری بار وزیر اعظم بن کر حکم چلاتے رہے ہیں نا اہل قرار دے دیا مگر وہ اس فیصلے کو انتقام کہہ رہے ہیں آخر ان سے کوئی یہ کیوں نہیں پوچھ رہا کہ میاں صاحب آپ نے ایسا کیا کیا ہے جس کا انتقام آپ سے اعلی عدلیہ لے رہی ہیں۔پیپلز پارٹی ملک کی ایک بڑی سیاسی طاقت ہے اور اس جماعت کے سربراہ پر پیپلز پارٹی کو اغواء کرنے کا الزام ہے ، اپنے دور اقتدار میں بدعنوانی کے ریکارڈبناکر اب انتہائی پارسائی کی نا صرف زندگی گزار رہے ہیں بلکہ میاں صاحب اور انکی جماعت پر تنقید کرتے بھی سنائی دیتے ہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ ایک ایسی جماعت تھی جس میں بدعنوانوں کی کوئی گنجائش نہیں تھی ، وقت نے پلٹا کھایا اور مختلف قسم کی بدعنوانیوں کی لمبی لمبی فہرستیں منظرِ عام پر آگئیں، جماعت اسلامی ابتک ملک کی وہ بڑی جماعت ہے جس نے بدعنوانی کو اپنے اندر کسی قسم کی گنجائش نہیں دی یا پھر اسکی دو وجوہات بھی ہوسکتی ہیں ایک تو یہ مذہبی جمع سیاسی جماعت ہے اور دوسری یہ کہ مرکز میں یہ اپنی اہمیت بنانے میں ناکام رہے ہیں۔تحریکِ انصاف میں بھی جو پرانے اور آزمائے ہوئے مہرے ہیں بدعنوانی ساتھ لئے گھوم رہے ہیں۔ ایک جماعت چھوڑ کر کسی کی شے پر دوسری جماعت میں چلے جانا یہ کہاں کی بہادری یا ایمانداری ہے، خیر ہماری سیاست میں دیانتداری اور ایمانداری تو مضحکہ خیز باتیں لگتی ہیں۔ یہ سیاست دان بھاگ بھاگ کر ہمارے پیسوں پر لندن اور دبئی اس لئے جاتے ہیں کہ پاکستان میں انہیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں عوام بیدار نا ہوجائے بہادر نا ہوجائے اور ہمارے گریبان پکڑکر ہمارا احتساب سڑکوں پر نا شروع کردے۔ ہوسکتا ہے ہم پر اب یہ واضح ہوگیا ہو کہ بے غیرتی اور بہادری میں کیا فرق ہوتا ہے ۔ ان سیاسی حکمرانوں کو سدھارنے کیلئے قدرت نے عقل دے رکھی ہے اگر ہم اب بھی اپنے آپ کو تعصب کی بیڑیوں سے آزاد نہیں کروائنگے تو قدرت کی جانب سے کچھ نہیں آنے والا۔​

Sh. Khalid Zahid

Sh. Khalid Zahid

تحریر : شیخ خالد زاہد