سیلاب و دھرنوں سے معیشت مفلوج

Pakistan Awami Tehreek

Pakistan Awami Tehreek

تحریر:محمد شاہد محمود

پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے وفاقی دارالحکومت میں جاری دھرنوں اور سیلاب سے ملکی معیشت کو شدید نقصان کے انکشافات ہوئے ہیں،غیرملکی ذرائع سے اڑھائی ارب ڈالر کی وصولی تاخیر کا شکار ہوچکی ہے جبکہ روپے کی قدر میں کمی سے بیرونی قرضوں میں 210ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے اور دھرنوں سے نمٹنے کے لئے وزارت داخلہ کو اضافی 35کروڑ 70لاکھ روپے کے اجراء سے بجٹ خسارہ میں اضافہ ہوگا۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق 2 ارب 50 کروڑ ڈالر کی بیرونی رقوم کی آمد تاخیر کا شکار ہو چکی ہے جن میں ایک ارب ڈالر کے سکوک بانڈ بھی شامل ہیں۔وزارت خزانہ کے مطابق سیاسی بحران کی وجہ سے روپے کی قدر کم ہونے سے بیرونی قرضوں میں 210 ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے جبکہ چینی صدر کا دورہ ملتوی ہونے سے 34 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متاثر ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق دھرنوں سے نمٹنے کیلئے وزارت داخلہ کو 35کروڑ 70 لاکھ کی اضافی گرانٹ جاری کی جا چکی ہے جس سے سالانہ بجٹ خسارے میں اضافہ ہوگا۔دستاویز کے مطابق ملک میں مجموعی سرمایہ کاری میں 20 فیصد کمی آئی ہے۔دھرنوں کی وجہ سے تیل کے درآمدی بل میں ابتدائی 30 دن میں 8 ارب جبکہ مجموعی طور پر تقریبا 12 ارب کا اضافہ ہوا ہے۔بیرونی سرمایہ کاری میں کمی سے تجارتی خسارہ مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔

جولائی سے اگست کے دوران برآمدات میں 5.8 فیصد کمی جبکہ درآمدات میں 9 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔مہنگائی کی صورت میں نجی شعبے کو قرضہ کی فراہمی متاثر ہوگی جبکہ اقتصادی ترقی کا 5.1 فیصد کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہوجائے گا۔رپورٹ کے مطابق سیلاب سے چاول ، گنے اور کپاس کی 24لاکھ 20 ہزار ایکٹر فصل متاثر ہوئی۔فصلوں اور لائیو سٹاک کو نقصان پہنچنے سے مہنگائی بڑھے گی جبکہ ریلیف اور بحالی کی سرگرمیوں کی وجہ سے بجٹ خسارے میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ سیلاب اور دھرنوں کے باعث ملکی معیشت شدیددبائومیں ہے۔اشیاء خوردونوش کی قیمتیں سوفیصد تک بڑھ چکی ہیں۔غریب عوام کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ملک وقوم کی فلاح وبہبود کے لئے حکمران عملاً کچھ نہیں کررہے۔

مارکیٹنگ کمپنیوں نے صارفین کے لئے ایل پی جی75روپے فی کلو تک مہنگی کردی ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں بس مافیا کی حکمرانی ہے۔منافع بخش اداروں کی نجکاری پر پوری قوم کوتحفظات ہیںان کی نجکاری کی بجائے انہیںٹھیک کیاجائے تاکہ وہ پھر سے ملکی ترقی میں اپناکردار اداکرسکیں۔حکمران اپنی نااہلی چھپانے کے لئے ایسی پالیسیاں مرتب کررہے ہیںجوملک وقوم کے مفاد میں نہیں۔ملک میں جاری سیاسی بحران کی وجہ سے ڈالر98سے بڑھ کرایک سو تین روپے تک جاپہنچاہے۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گرنے سے240ارب روپے کانقصان ہواہے۔سٹاک مارکیٹ میں مسلسل مندی کارجحان برقرار ہے۔

سرمایہ داروں کے اربوں روپے ڈوب چکے ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب کہتے ہیں کہ سیلاب متاثرین کے نقصانات کے ازالے کی غرض سے مالی امداد کی ادائیگی کیلئے اربوں روپے کا تاریخی پیکیج دیا ہے۔ پنجاب کے ساتھ آزادکشمیر میں بھی سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ پنجاب حکومت متاثرین سیلاب کی بحالی کا آغاز مہینوں میں نہیں، دنوں میں کر رہی ہے۔ پہلے مرحلے میں تمام سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرہ افراد کو انکے مکانات کے نقصان کے ازالے کیلئے فی کس 25 ہزار روپے دیئے جائیں گے۔ پہلی قسط کی ادائیگی کا آغاز یکم اکتوبر سے کیا جا رہا ہے۔

دوسرے مرحلے میں فصلوں کے نقصانات کا تخمینہ لگا کر متاثرین کو امدادی رقم کی ادائیگی 20 اکتوبر سے شروع کردی جائیگی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ عید پر متاثرہ علاقوں میں قربانی اور کھانے کا انتظام کیا جائیگا۔ متاثرین اور بچوںکو عید گفٹ بھی دیئے جائیں گے۔جماعة الدعوة کے رضاکار بھی سیلاب متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں،حافظ محمد سعید نے عید الاضحیٰ کے موقع پر سیلاب متاثرہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر قربانیاں کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ سیلاب متاثرین و آئی ڈی پیز کو عید کی خوشیوں میں شریک کیا جائے گا۔

Flood victims

Flood victims

متاثرہ علاقوں میں وسیع پیمانے پر دسترخوان لگائے جائیں گے۔لاہور میں سیلاب متاثرہ علاقوں کی جانب امدادی سامان کی روانھی کے موقع پر انکا کہنا تھاکہ جماعةالدعوة کی طرف سے سیلاب متاثرہ تمام علاقوںمیں ریلیف سرگرمیاں سرانجام دی جارہی ہیں۔25ہزار سے زائد افراد کو ریسکیو کیا گیا۔ لاکھوں افراد کو تیار کھانااور طبی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ اگلا مرحلہ راشن کی تقسیم کا ہے۔ ہم نے اللہ کے فضل و کرم سے مختلف شہروں سے امدادی سامان بھجوانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ لاہور سے دو ہزار سے زائد خاندانوںکیلئے راشن پیک بھجوایا گیا ہے اور یہ سلسلہ آنے والے دنوںمیں بھی جاری رکھا جائے گا۔جماعة الدعوة کی طرف سے28موٹر بوٹس کے ذریعے 23ہزار4سو تیس سیلاب متاثرہ افراد کو ریسکیو کیاگیا۔15ہزار سے زائد خاندانوں میں خشک راشن پیک جبکہ ساڑھے تین لاکھ سیلاب متاثرین میں پکی پکائی خوراک تقسیم کی گئی۔

حالیہ سیلاب کے بعد ایف آئی ایف کے رضاکار تمام متاثرہ علاقوں میں پہنچے۔لاہور، اسلام آباد، جہلم، گجرات، منڈی بہائوالدین، حافظ آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، جھنگ، چنیوٹ، نارووال، بہاول نگر، سرگودھا ، مظفر گڑھ اور دیگر متاثرہ علاقوں میں فلاح انسانیت فائونڈیشن کی طرف سے ریسکیو آپریشن میں28موٹر بوٹس نے حصہ لیا۔ اس دوران23,430 متاثرین کو سیلابی پانی سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیاجن میں بڑی تعداد میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد متاثرین کو فری ٹرانسپورٹ کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔فلاح انسانیت فائونڈیشن کے رضاکاروں نے لوگوں کے گھروں کا سامان اور مویشیوں کو بھی محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے میڈیکل مشن کے تحت سیلاب متاثرہ علاقوں میں 258میڈیکل کیمپس لگائے گئے جن سے 96,540متاثرین سیلاب مستفید ہوئے۔

میڈیکل ٹیموں نے کشتیوںکے ذریعے سیلابی پانی میں گھرے متاثرہ مریضوں کا چیک اپ کیا اور ان کو لاکھوں روپے مالیت کی ادویات مفت فراہم کیں۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کی 84 ایمبولینس گاڑیاں ریلیف و ریسکیو آپریشن میں حصہ لے رہی ہیں ۔فلاح انسانیت فائونڈیشن کی جانب سے سیلاب متاثرہ علاقوں میں لگائے گئے ریلیف کیمپوں کی تعداد 46ہے جہاں ہزاروں امدادی رضاکار خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جماعة الدعوة کی جانب سے 15,000 سے زائدمتاثرہ خاندانوں میںخشک راشن تقسیم کیا جاچکا ہے۔

راشن پیک میں آٹا، چاول، گھی، چینی، دالیں اور دیگر اشیائے خورونوش شامل ہیں۔ 90,000سے زائد بچوں کو کھانے پینے کی اشیاء مثلاً ٹافیاں، جوس، دودھ اور دیگر اشیاء فراہم کی گئیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت درپیش مسائل سے فوری نجات کے لئے ہنگامی بنیادوں پرکام کرے۔پاکستان کی معیشت درحقیقت مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔عیدالاضحی سے قبل مہنگائی میں ہوشرباء اضافہ ہوچکا ہے جسے ترجیحی بنیادوں پر کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔بدقسمتی سے قومی واسلامی تہواروں کے موقع پر عوام کوریلیف دینے کی بجائے دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔سرکاری محکمے،پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور مارکیٹ کمیٹیاں قیمتوں کوقابومیں رکھنے کے لئے کوئی کردار ادانہیں کررہی ہیں۔صرف گڈگورننس کے دعوئوں سے بہتری نہیں آسکتی حکمرانوں کو عملاً کام کرنا ہوگا۔

Mohammad Shahid Mahmood

Mohammad Shahid Mahmood

تحریر:محمد شاہد محمود