والدین کے ساتھ حسن سلوک

International Day of Parents

International Day of Parents

تحریر: عبدالوارث ساجد
25جولائی کا دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں”یوم والدین” کے طور پر منایا گیا اس کا مقصدوالدین کی اہمیت۔قد اورروالدین کے احسان کو جاننا ہے اس روز والدین کے حقوق کے لے سیمینار ہوتے ہیںتقریبات کا اہتمام ہوتا ہے اوروالدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی جاتی ہے اس حوالے سے اگر ہم اسلام کی تعلیمات دیکھیں تو اسلام ہمیں ایک دن نہیں بلکہ ہر روز ہیوالدین کے ساتھ حسن سلوک اور اچھابرتائو کر نے کا درس دیتا ہے اسلامی تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہدنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز والدین کے ساتھ اچھے برتائو چھے سلوک میں ہے قرآ ن پاک میں اللہ کا فرمان ہے”اور اللہ تعالی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرو اور رشتہ داروں سے یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابتدار ہمسایا سے اور اجنبی ہمسایا سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافرسے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں ( غلام یا کنیز) یقینا اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والو ں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا ۔” ( ٤/ النساء : ٣٦)
والدین کے اچھابرتائو کر و

فرمان الہی ہے ”ہم نے ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت کی ہے ہاں اگر یہ کوشش کریں کہ آپ میرے ساتھ اسے شریک کرلیں جس کا آپ کو علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مانیے تم سب میری طرف لوٹ کر آئو گے پھر میں تمہیں خبر دوں گا جو تم کرتے رہے ۔”(٢٩ العنکبوت ٨)

ایک جگہ اللہ نے فرمایا”اور تیرا پروردگار صاف فیصلہ دے چکاہے کہ تم اسکے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اورماں باپ کے ساتھ احسان کرنا اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یادونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں توان کے آگے اُف تک نہ کہنا نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام کے ساتھ بات چیت کرنااور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کابازو پست کیے رکھنا اور دعاکرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان پرویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے ۔” ( ١٧ الاسراء ٢٣،٢٤)

اولاد کے لئے ماں کی مشقت اولاد کے لے والدین بالخصو ص ماں کی مشقت بیان کرتے ہوے اللہ نے فرمایا”اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری سہتے ہوئے(اپنے پیٹ میں ) اٹھائے رکھا اوردو سال اس کے دودھ چھڑانے میں لگے (اسی طرح یہ حکم دیا کہ ) میرا شکر ادا کرو اوروالدین کا بھی (آخر) میرے پاس ہی (تجھے ) لوٹ کر آنا ہے ،اور اگر وہ تجھ پر یہ دبائو ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک بنائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا البتہ دنیاوی معاملات میں ان سے بھلائی کے ساتھ رفاقت کرنا مگر پیروی اس شخص کی راہ کی کرنا جس نے میری طرف رجوع کیا ہو پھر تمہیں میرے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے تو میں بتا دوں گا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے ۔” ( ٣١/ لقمان: ١٤’١٥)

جیسے قرآن پاک میںاللہ نے والدین کے ساتھ اچھابرتائو کرنے اوروالدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تلقین کی ایسے ہی حدیث رسول میں بھی والدین خواہ غیرمسلم ہی کیوں ناہوں احترام کرنے کا سبق دیا۔

سیدناعبدالرحمن عبداللہ بن مسعود t سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ eسے دریافت کیاکون ساعمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے ؟آپ e نے فرمایا: اپنے وقت پر نماز پڑھنا ‘ میں نے کہا پھر کون سا؟ آپ e نے فرمایا :والدین کے ساتھ نیکی کرنا ‘میں نے کہا پھر کون سا؟ آپeنے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا”۔
الدارقطنی(١/٢٤٦)

نماز کو اپنے وقت پر پڑھنے کامطلب ہے ‘ اول وقت یاکم ازکم پابندی کے ساتھ اسے اس کے وقت پرپڑھنا ، یہ نہیں کاروباری اور دیگر دنیاوی مصروفیات میں اس کوتاخیر سے یابے وقت پڑھے ،نماز اور جہاد افضل ترین اعمال میں سے ہیں ،والدین کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت کو بیان کیاگیاہے ۔

والدین کے ساتھ اچھا برتائو کرنے کاثواب
سیدنا ابوہریرہtسے مروی ہے کہ ہم رسول اللہeکے پاس بیٹھے ہوئے تھے ،اچانک ایک نوجوان گھاٹی کی طرف سے آیا،جب ہم نے اس کو دیکھا توہم نے کہا شائدیہ نوجوان اپنی جوانی اورطاقت اللہ کی راہ میں وقف کرتا ،ابوہریرہ tفرماتے ہیں کہ ہماری یہ بات رسو ل اللہeنے سن لی اورآپeنے فرمایا:”کیااللہ تعالیٰ کی راہ میں وہی ہوتاہے جو قتل کیا جاتاہے؟ جس نے اپنے ماں باپ کے لئے محنت کی وہ بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے ،جس نے اپنے اہل وعیال کے لئے محنت کی وہ بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے ،جس نے اپنے لیے محنت کی تاکہ وہ سوال کرنے سے بچے ،وہ بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے اور جس نے مال زیادہ اکٹھا کرنے کی کوشش کی وہ شیطان کی راہ میں دوسری روایت میں ہے کہ وہ طاغوت کی راہ پر ہے۔”

‘طبرانی فی الاوسطحدیثِ طیبہ سے بہت لطیف نقطہ واضح ہوا ہے ،کہ ہر وہ شخص جو اپنے والدین اور بچوں کے لئے حلال روزی کی تلاش میں لگارہتا ہے وہ اللہ کی راہ میں یعنی وہ ایسے ہے جیسے مجاہد جہاد میں ،اس حدیث سے حلال رزق کمانے کی اہمیت واجر کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے ۔اولاد پر والدین کی خاطر تواضع کرنافرض ہے اور اس کا ثواب جہاد جیساہے ۔وہ لوگ جو ناجائز وحرام طریقوں سے مال کمانے کے چکر میں مبتلا ہیں ان کی بابت رسالت مآبeنے واضح طور ارشاد فرمادیا یہ شیطان یعنی طاغوت کی راہ پر ہیں ۔ایسے طاغوت کہنے میں لطیف حکمت یہ ہے دولت کی طمع وحرص میں جکڑا ہوا شخص عبادات میں سستی وکاہلی کا مرتکب ہوتاہے ،حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کے امور میں کوتاہی کرتاہے ۔

والدین کے احسان کا بدلہ
سیدناابوھریرہt سے روایت ہے کہ رسول اللہ e نے ارشادفرمایا:”کوئی اولاد اپنے والد کے احسان کا بدلہ نہیں چکاسکتی ‘مگر یہ کہ وہ اپنے باپ کو غلام پائے اوروہ اسے خرید کر آزاد کردے ۔” صحیح مسلم،
حسن سلوک کے مستحق والدین

سیدناابوہریرہ t سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ e کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیاے اللہ کے رسول ! میرے حسن سلوک کے سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟

” آپ نے فرمایا:تمہاری ماں ۔ اس نے کہا پھرکون ؟ آپ نے فرمایاتمہاری ماں:اس نے پھر پوچھا ‘پھر کون ؟ آپ e نے فرمایاتمہاری ماں ۔اس نے پھر پوچھا پھر کون ؟ آپ e نے فرمایاتمہارا باپ ۔”صحیح بخاری
ایک اور روایت میں (اس طرح ہے )اس نے پوچھا اچھے سلوک کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟آ پ e فرمایاتمہاری ماں ‘پھر تمہاری ماں ‘ پھر تمہاری ماں ‘پھر تمہار ا باپ ‘پھر جو تمہارے سب سے زیادہ قریب ہو ‘پھر جو تمہار ے سب سے زیادہ قریب ہو ۔”
دوسری روایت میں ہے کہ آپeنے ارشاد فرمایا:
”بے شک خدانے مائوں کی نافرمانی تم پر حرام کردی ہے ۔”صحیح بخاری’البروالصلة
اور ایک تیسری روایت میں ہے کہ ماں باپ کا نافرمان جنت میں داخل نہیں ہوگا:صحیح بخاری’

اسلام میں مخلوقات انسانی میں والدین اور ماں باپ کی بڑی اہمیت ہے ،کیونکہ یہی دونوں تخلیق انسانی کی ظاہر علت مادی ہیں ‘لیکن ان میںماں کو باپ سے زیادہ تفویق اور برتری حاصل ہے ‘کیونکہ ماں نے اپنے بچے کو اپناخون پلا پلا کر بڑھایا اور نو مہینے اس کی مشکل سہ کر اور سختی اٹھاکراپنے پیٹ میں رکھا ،پھر اس کو جننے کی ناقابل برداشت تکلیف کو ہنسی خوشی برداشت کیا ،پھر اس نوپید مضغہ گوشت کواپنی چھاتی سے لگاکر اپنا خون پانی ایک کرکے پلایا،اس کی پرورش میں نہ دن کی راحت سے لطف اندوز ہوئی نہ رات کی راحت سے ذہنی’قلبی و جسمانی سکون حاصل کیا،اس معصوم پر اپنی تمام تر خواہشیں قربان کردیں،ذرہ سی آہٹ پر ماں اس پر نثار نظر آئی ،پھر آہستہ آہستہ یہ معصوم بچہ بڑا ہونے لگا ،دنیا میں اس کی نظروں کی محور تھی تو ماں ،اگر یہ روتا تو گود کی زینت بناتی تو ماں ،اس کی نگہداشت میں کوئی کسر باقی نہ اٹھارکھتی ،اتنی عظیم المرتبت ،عزت مآب ،آنکھوں کی ٹھنڈک ،جسے دیکھنے سے اللہ تعالیٰ حج مبرور کا اجر دے ،اس عظیم ماں کے رتبہ کامصداق کوئی اور رشتہ نہیں ہوسکتاہے۔
اس لیے شریعت محمدی نے اپنی تعلیم میں جو بلند سے بلند مرتبہ اس کو عنائت کیا ہے ‘وہ اسی کے لائق ہے ،ماں کے ساتھ جو دوسری ہستی بچہ کی تولید وتکوین میں شریک ہے وہ باپ ہے ،اور اس میں شک نہیں کہ اس کی نشوونما اور تربیت میں ماں کے بعد باپ ہی کی جسمانی اور مالی کوششیں شامل ہیں ،اس لئے جب ان کی محنتوں اور کوششوں سے قوت کو پہنچے تو اس پر فرض ہے کہ اپنے ماں باپ سے حاصل کی ہوئی قوت کا شکرانہ ماں باپ کی خدمت کی صورت میںادا کرے ،اسلام نے ان دونوں عظیم نفوس قدسیہ کی قدرومنزلت کے پیش نظر انکاادب واحترام ‘حوصلہ بڑھانے اور ہاتھ بٹانے کو فرض قرار دیاہے ،انکے ادب کی منزل اتنی عظیم اور اہم ہے کہ ان کے سامنے تلخ کلامی تو کجا اُف تک کہنے کو حرام قرار دیا ہے ،انکی خدمت کرنے کو جہاد قراردیا ہے ۔ دوسری طرف نافرمان اولاد کے لئے رسول اللہeنے بددعا کی
سیدنا ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ رسول اللہ eنے ارشاد فرمایا:”ناک خاک آلود ہو ، پھر ناک خاک آلود ہو، پھر ناک خاک آلود ہو اس شخص کی جس نے بڑھاپے میں اپنے والدین کوپایا ، ان میں سے ایک کو یادونوں کو اور پھر (بھی ان کی خدمت کرکے )جنت میں نہیں گیا۔”

صحیح مسلم ،احمد(٨٥٦٥)”رغام ”مٹی کوکہتے ہیں ، ناک کاخاک آلود ہونا ، یہ کنایہ ہے ذلت سے ۔ گویااس کی ناک مٹی میں مل گئی ، اس میں ایسے بدنصیب کے لئے بددعا یا اس کے انجام بد کی خبر ہے جو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور انکو راضی کرکے جنت حاصل نہیں کر لیتا ۔

حسنِ سلوک کااولین مصداق
سیدناعبداللہ بن عمرو بن عاص t روایت کرتے ہیں:کہ ایک آدمی نبی eکی خدمت میںحاضر ہوا اور عرض کیا میں آپ سے ہجرت اور جہاد پر بیعت کرتاہوں اور اللہ سے اجر کا طالب ہوں ۔” آپe نے پوچھا تیرے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے ؟ اس نے جواب دیا ‘ہاں ‘بلکہ دونوں ہی زندہ ہیں ۔آپ eنے اس سے پوچھا کیاتو واقعی اجر کا طالب ہے ؟ اس نے کہا ہاں آپe نے فرمایا: پھر تو اپنے والدین کے پاس لوٹ جا اور انکی اچھی طرح خدمت کر” ۔

صحیح بخاری ،
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک آدمی آیا اور اس نے آپ سے جہاد میں جانے کی اجازت طلب کی آپe نے پوچھا کیاتیرے ماں باپ زندہ ہیں ؟ اس نے کہاہاں آپeنے فرمایا: پس تو انکی خدمت کی کوشش کر ۔”تیسری روایت میں ہے کہ تیر ی ماں زندہ ہے تو اس کی خدمت کو لازم پکڑاسکے قدموں کے پاس جنت ہے ۔”سنن نسائی(٣١٠٦)’احمد(٣/٤٢٩)
اسلام میں جہاد کی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ،مگراس کے برعکس والدین کی خدمت گزاری کا درجہ اس سے بڑھ کر ہے ،ان کے اجازت کے بغیر جہاد جیسا عظیم فریضہ بھی جائز نہیں ،اسکی وجہ یہ ہے کہ جہاد میں جاتے وقت واپس لوٹنے کی غرض سے نہیں جایاجاتا بلکہ اسلام کی سربلندی ودفاع کے لئے شہادت کے جذبہ سے سرشار ہوکر رخت سفر باندھاجاتا ہے ایسی صورت میں والدین کی اجازت کو لازم قرار دیاگیا ہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اولاد’ والدین کی میراث ہے جس پر انہوں نے اپنے جان ومال کو نچھاور کیا ،اپنی آسائشیں اس کی تعلیم وتربیت کے لئے قربان کردیں ۔مندرجہ بالا روایت میں سائل کانام سیدناجہمہ tہے جورسول اللہeکے پیارے صحابی ہیں ،اور وہ رسول اللہeکے پاس مشورہ کی غرض سے جہاد میں جانے کی بابت دریافت فرمارہے ہیں ،جس پر آقامکی ومدنی eنے واضح طور پر فرمایا ! اگر تیر ی ماں زندہ ہے تو اسکی خدمت کو لازم پکڑلے ،کیوں کہ جنت اس کے پائوں کے پاس ہے ۔

والدین خواہ غیرمسلم ہوں احترام کرو
سیدہ اسماء بنت ابی بکر صدیق r روایت کرتی ہیں کہ:میری والدہ میرے پاس آئیں ہیں،وہ مجھ سے حسن سلوک کی خواہشمند ہیں:میری ماں جب کہ وہ ابھی مشرکہ تھیں میرے پاس آئیں ، میں نے رسول اللہ e سے پوچھا:” کیامیں انکی خواہش کے مطابق انکے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں : تم اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔”صحیح :بخاری ،دنیاوی امور میں حسن سلوک کا حکم دیاگیاہے دنیا کے کاموں میں اچھی طرح ان کاساتھ دینا ۔” خواہ والدین مشرک ہی کیوں نہ ہوں ۔جیساکہ مندرجہ بالاروایت سے واضح ہوتاہے ۔

والدین کی نافرمانی کرناکبیرہ گناہ
”سیدنا عبد الرحمن بن ابوبکرہtسے روایت ہے کہ رسول اللہ e نے فرمایا:کیامیں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں ؟ تین مرتبہ آپe نے یہ فرمایا: ہم نے کہا کیوں نہیں یارسول اللہ e آپ e نے فرمایا:(١) اللہ کا شریک ٹھہرانا (٢)ماں باپ کی نافرمانی کرنا”آپe ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا: سنو!جھوٹی گواہی دینا پھرآ پ eیہ بات دہراتے رہے یہاں تک ہم نے کہا کاش آپ e خاموش ہوجائیں ۔”صحیح بخاری

ایسے ہی سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص tسے روایت ہے کہ رسول اللہ e نے فرمایا:کبیرہ گناہ (یہ یہ ) ہیں ، اللہ کے ساتھ شریک گرداننا ، ماں باپ کی نافرمانی کرنا ، قتل نفس (ناحق کسی کوماردینا یاخود کشی کرنا) اور جھوٹی قسم کھانا۔” صحیح بخاری
والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہ ہے

”سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص tسے روایت ہے کہ رسول اللہ e نے فرمایا:کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے والدین کوگالی دے صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ e ! کیا آدمی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتاہے …؟آپe نے فرمایا:” ہاں ایک شخص کسی کے باپ کو گالی دیتاہے ؟ وہ پلٹ اس کے باپ کو گالی دیتاہے اسی طرح وہ اس کی ماں کو گالی دیتاہے اور وہ جواب میں اس کی ماں کوگالی دیتاہے (یوں گویاوہ اپنے والدین کی گالی کا سبب بنا)” صحیح بخاری
والدین کی اطاعت بیوی بچوں پرمقدم ہے

امام احمدبن حنبل aنے مسنداحمد میں یہ روایت رقم کی ہے کہ رسول اللہeنے معاذبن جبل tکو دس وصیتیں فرمائیں ان میں سے ایک یہ ہے :
”ماں باپ کی نافرمانی نہ کرنا اگرچہ تم کو یہ حکم دیں کہ تم اپنے بیوی بچوں اور مال ودولت کوچھوڑ دو۔”مسند للاحمدبن حنبل(٥/٢٣٨)
قیامت کے دن اللہ کی رحمت سے مایوس لوگ

صحیح ابن حبان میں عبداللہ بن عمر tسے مروی ہے کہ رسو ل اللہeنے ارشاد فرمایا:”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندوں کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا :1والدین کانافرمان 2شراب پینے والا 3احسان جتانے والا ۔’صحیح ابن حبان

نفل نماز پر والدین کی اطاعت مقدم ہے
ابن جریج بہت عبادت گزار آدی ہے اس نے جنگل میں ایک کٹیابنا رکھی ہے ممتاکی ماری ماں اسے ملنے آئی اور اسے پکاراوہ عبادت میں مصروف تھا ماں کی آواز سن کر اسے پہچان کربھی وہ اپنی عبادت میں مصروف رہا اور ماں کی پکار کو کوئی اہمیت نہ دی دوسرے دن پھر اسکی ماں آئی پھر اس نے کوئی توجہ نہ دی تیسرے دن پھر ایساہی واقعہ ہوا تو ماں کواس بات کا اتناصدمہ ہواکہ اسکے منہ سے اپنے اس درویش بیٹے کے حق میں بے اختیار یہ بددعانکل گئی کہ الٰہی جب تک میرا بیٹا کسی فاحشہ عورت کا منہ نہ دیکھ لے اسے موت نہ آئے یہ بدعا اللہ نے قبول کی اور ابن جریج اپنی عبادت اور خداترسی میں اتنامشہور تھاکہ بنی اسرائیل کے اکثر لوگ اس سے حسد کرنے لگے تھے اور چاہتے تھے کہ ابن جریج کوئی ایساالزام لگے جس سے اسکا یہ بلند مقام چھین لیاجائے ،ایک بدنام زمانہ فاحشہ عورت نے جو حسن وجمال میں اپنی نظیر نہیں رکھتی تھی اس خدمت کو سرانجام دینے کا ذمہ لیا اور اسی غرض سے اپنے آپ کو جریج پر پیش کیا جریج نے اسے رد کردیا، اور اس نے اپنامنہ ایک چرواہے سے کالا کیا اور جس سے اسے حمل ہوگیا جب بچہ پیدا ہوا تو اس نے مشہور کردیا کہ بچہ ابن جریج کا ہے ،لوگوں نے جریج پرحملہ کردیا اور کوٹیا کو منہدم کردیا اس نے لوگوں سے وجہ پوچھی تو لوگوں نے سارا ماجرا سنادیا جریج نے کہا تھوڑی دیر ٹھہرو لوگ رک گئے۔ تو اس نے وضو کیا اور عبادت میں مشغول ہوگیا اور اللہ سے دعاکی اللہ نے دعاقبول کرلی آپ باہر تشریف لائے تو وہ عورت بمعہ بچہ وہاں کھڑی تماشہ دیکھ رہی تھی ۔

جریج نے اس بچے کے پیٹ میں کچوکا دے کر پوچھا بتاتیرا باپ کون ہے ؟ بچہ قدرت الہی سے بول اٹھا : فلاں چرواہا تب جاکر لوگوں نے جریج کاپیچھا چھوڑا ، لوگ جریج سے معافی مانگنے لگے اور کہنے لگے کہوتو تمہیں سونے کی کٹیابنادیں لیکن جریج نے کہا مجھے ویسی ہی کٹیابنا دو ۔
صحیح مسلم ، امام مسلم aنے اس حدیث پر باب باندھا ہے کہ نفل نماز پر والدین کی اطاعت مقدم ہے ۔اس روایت سے کئی فوائداخذکئے جاسکتے ہیں
:1اولاد کو والدین کے ساتھ ہمیشہ نیکی کرتے رہناچاہیے ۔
2والدین کی اطاعت کو نفلی عبادات پر فوقیت حاصل ہے ۔
3جب ماں پکارے تو ماں کی پکار کا جواب دینا چاہیے اگر کسی کام میں مشغول ہو تو ایسے ترک کردے ۔
4والدین کی بدعا سے ہر حال میں بچنا چاہیے اور انکی اطاعت کو لازم پکڑنا چاہیے ۔
5والدین کی بدعا نیک ‘صالح ‘عابد وزاہد کے حق میں بھی قبول ہوتی ہے ۔
6انسان کو اپنے فرائض سے باخبر رہناچاہیے تاکہ غفلت سے پیدا ہونے والے مسائل سے بچا جاسکے ۔
7جب دوامرجمع ہوجائیں تو پہلے کوترجیح دینی چاہیے ۔
8مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تنہا نہیں چھوڑتا ،بلکہ اپنے بندوں کی مدد کرتاہے ۔
9بندگان خدا’اولیاء اللہ کی کرامات حق ہیں ،لیکن یہ اللہ کے حکم کے تابع ہیں ۔
0مشکل کے وقت دعاسے پہلے نماز پڑھنا ،اور نماز سے پہلے وضو کرنا مستحب ہے ،اور یہی مذہب ہے اصحاب الحدیث ‘اہل السنہ کا ۔

والدین کی خدمت کرنے سے دنیاوی پریشانیاں دور ہوتیں ہیں
ماں باپ کے ساتھ نیکی اور انکے ساتھ خدمت گزاری کرنے سے اللہ تعالیٰ دنیاوآخرت کی مصیبتوں کو دورکردیتا ہے ۔ایک دفعہ رسول اللہ eنے اس کی مثال دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :”تین مسافر راہ میں چل رہے تھے کہ اتنے میں موسلادھار بارش برسنے لگی ،تینوں نے بھاگ کرایک غار میں پناہ لی ،یکایک ایک چٹان اوپر سے گری اور اس سے غار کا منہ بند ہوگیا ،اور ان کے بے بسی اور بے چارگی کا کون اندازہ کرسکتا ہے ؟انہیں اپنی موت سامنے کھڑی نظر آتی ہے ،انہوں نے پورے خشوع وخضوع کے ساتھ دربارالٰہی میں اپنے ہاتھ پھیلائے (اور آسمان کی طرف بلند کئے)ہر ایک نے کہا کہ اس ہرایک کو اپنی خالص نیکی کا واسطہ دینا چاہیے ۔تو پہلے نے کہا یا اللہ تو جانتا ہے ! میرے والدین بوڑھے تھے ،اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ،میں بکریاں چرایاکرتا تھا ،اور اسی پر ان کی روزی کا سہارا تھا ،میں جب شام کو بکریاں لے کر گھر آتا تو دودھ دوھ کر پہلے اپنے ماں باپ کی خدمت میں لاتا تھا ،جب وہ پی لیتے اس کے بعد میں اپنے بچوں کو پلاتاتھا ،ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں بکریاں چرانے دورنکل گیا ،لوٹا تو میرے والدین سو چکے تھے ،میں دودھ لے کر ان کے سرہانے کھڑا ہوگیا ،میں نے انہیں نہ جگایا اس ڈرسے کہ کہیں انکی نیند میں خلل واقع نہ ہوجائے ،اور نہ میں ان سے علیحدہ ہوا،خدا جانے کس وقت آنکھ کھل جائے ،اور دودھ مانگیں اور بچے بھوک سے بلک رہے تھے ،مگر مجھے گوارا نہ تھا کہ میرے والدین سے پہلے میرے بچے سیر ہوں ، میں اسی طرح پیالہ لیے رات بھر ان کے سرہانے کھڑا رہا ،اور وہ آرام کرتے رہے ،خداوندتجھے معلوم ہے کہ میں نے یہ کام تیری خوشنودی کے لیے کیا ہے ،تواس غار کے منہ سے چٹان کو ہٹا دے ،یہ کہناتھا کہ چٹان خود بخود جنبش میں آئی اور غار کے منہ سے تھوڑا سا سرک گئی ،اور اسکے بعد باقی دونے بھی اپنے کاموں کا وسیلہ دے کر دعاکی اور غار کا منہ کھل گیا اور وہ سلامتی سے باہر آگئے۔
]صحیح بخاری

ماں باپ کے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کابیان
”سیدناعبداللہ بن عمر tسے روایت ہے کہ رسول اللہ eنے ارشاد فرمایا:سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ سے دوستانہ تعلقات رکھنے والوں سے تعلق جوڑ کررکھے ۔( یعنی باپ کی محبت اور دوستی کونبہائے )۔”

اورعبداللہ بن دینار سیدنا عبداللہ بن عمر tسے روایت کرتے ہیں کہ”ایک دیہاتی آدمی انہیں ایک راستے میں ملا ، عبداللہ بن عمر tنے اسے سلام کیا اور اسے گدھے پر سوار کرلیا ، جس پر وہ خود سوار تھے اور اسے وہ عمامہ بھی دے دیا جو ان کے سر پر تھا (حدیث کے راوی ابن دینار کہتے ہیں )کہ ہم نے ابن عمر t سے کہا اللہ آپ کا بھلاکرے یہ تو دیہاتی لوگ ہیں ،تھوڑی سی چیز پر راضی ہوجاتے ہیں ،(ان کے ساتھ اتنا کچھ کرنے کی کیا ضرورت تھی ) سیدناعبداللہ بن عمر t نے فرمایا: ”(بات یہ ہے )اس شخص کاباپ(میرے باپ)عمربن خطاب کادوست تھا، اور میں نے رسول اللہ e کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے بڑی نیکی آدمی کااپنے باپ کے دوستوں سے نیکی کرناہے ایک”اور روایت میںہے جو ابن دینار ہی ابن عمرt سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عمرt جب مکہ جاتے تو ان کے پاس ایک گدھاہوتا جب وہ اونٹ کی سواری سے اُکتاجاتے تو اس پرسوار ہوجاتے اور ایک عمامہ ہوتا جسے وہ سر پر باندھ لیتے ، اس دوران کہ ایک دن وہ اس گدھے پر سوار تھے ، آپ کے پاس سے ایک دیہاتی گزرا آپ نے اس سے پوچھا کیاتو فلاں بن فلاں کابیٹانہیں ہے ؟اس نے جواب دیا ہاں کیوں نہیں ، آپ نے اسے وہ گدھادے دیااور فرمایا: اس پر سوار ہوجا اور اسے عمامہ بھی عنائیت فرمادیا اور کہا اس کے ساتھ اپنے سرکوباندھ لے پس ابن عمرt کے بعض ساتھیوں نے ان سے کہا اللہ تعالی آپ کو معاف فرمائے آپ نے اس دیہاتی کو وہ گدھابھی دے دیا جس پر آپ دوران سفر آرام کرتے تھے ، وہ عمامہ بھی دے دیاجس کے ساتھ آپ اپنے سر کو باندھتے تھے ۔ آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہe کو فرماتے ہوئے سنا :کہ سب سے بڑی نیکی یہ ہے ، کہ آدمی اپنے باپ کے (مرنے کے بعد) اس کے دوستوں سے تعلق برقرار رکھے اور ان سے حسن سلوک کرے (اور تمہیں معلوم ہوناچاہیے ) کہ اس کاباپ حضرت عمربن خطاب t کادوست تھا۔”

صحیح مسلم ،
والدین کے لیے دعائے مغفرت کرنا
سیدناابو اسید مالک بن ربیعہ tسے روایت ہے کہ:ایک وقت ہم رسول اللہ e کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، کہ بنی سلمہ قبیلے کا ایک آدمی آپ کی خدمت میں حاضرہوا اور آکر اس نے عرض کیا یارسول اللہe کوئی ایسی نیکی بھی باقی ہے جو والدین کی وفات کے بعد میں ان کے ساتھ کروں ؟ آپ e نے فرمایا: ”ہاں ! ان کے حق میں دعائے خیر کر نا اور انکے لیے مغفرت مانگنا ان کے بعد (کئے گئے )عہد پورا کرنا اور ان کے رشتوں کوجوڑنا، جو انہی کی وجہ سے جوڑے جاتے ہیں اور ان کے دوستوں کی عزت کرنا ۔”سنن ابی داود،

والدین جب حیات ہوں تو انکی خدمت کولازم پکڑنا چاہیے،اور انہیں خوش رکھنے کے لیے تمام تراقدامات کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،سائل رسول اللہeسے والد کی وفات بعد کیاکرناچاہیے کی بابت دریافت کیاہے جس پر رسول اللہeنے واضح فرمایا ہے کہ دعاکرنی چاہیے ،حدیث میں ہے کہ رسول اللہeنے فرمایا دعاہی عبادت ہے ،اولاد پر والدین کایہ بھی حق ہے ان کے مرنے کے بعد والدین کے دوستوں کے ساتھ خیر خواہی کی جائے اور والدین کے دوستوں کی عزت کی جائے ۔

الحاصل والدین اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں ،اولاد کوچاہیے کو وہ والدین کی عزت وتوقیر کو لازم پکڑے ،اسی میں دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راز افشاں ہے ،والدین کی بے ادبی کرنے والا مراد کو نہیں پہنچ سکتا ،مثل مشہور ہے :”بے ادب بے مراد ‘باادب بامراد”اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ اللہ تعالیٰ میں سمیت تمام عامتہ الناس کو والدین کی عزت وخدمت کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔اورجن بھائیوں اور بہنوں کے ماںباپ وفات پاچکے اللہ تعالیٰ انکو بہشت میں جگہ دے۔

Abdulwaris Sajid

Abdulwaris Sajid

تحریر: عبدالوارث ساجد