عوام دوست بجٹ۔۔۔؟

People Friendly Budget

People Friendly Budget

تحریر: ایم ایم علی
بلا آخر گذشتہ روز رواں مالی سال 2015-16 کا بجٹ پیش کر دیا گیا ،یہ موجودہ حکومت کے اس دور کا تیسرا اور ملکی تاریخ کا 68 واں بجٹ تھا ۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تقریبا 2 گھنٹے 5 منٹ کی 67 صفحوں پر مبنی طویل بجٹ تقریر کی ۔ ہر بجٹ کی طرح اس بار بھی قوم سے نئے وعدے اور نئے دعوے کئے گئے ہیں اور قوم کو نئی امیدیں دلائی گئی ہیں ،جوں جوں بجٹ کا دن قریب آتا ہے عوام کی امیدوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ،کہ اس سال پیش ہونے والا بجٹ عوام دوست ہوگا اور یہ بجٹ ان کی زندگیوں میں تبدیلی لائے گا ۔لیکن ہمیشہ کی طرح ان کی امیدیں بجٹ کی تقریر کے الفاظ کے ہیر پھیر میں دب جاتی ہیں ،عام آدمی کیلئے بجٹ کی تقریر صرف الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے ۔کیونکہ عام آدمی جی ڈی پی ۔ جی ایس ٹی۔فیصد۔

اور حجم جیسے الفاظ سے ہی ناوقف ہوتا ہے۔گذشتہ شب ایک ٹی وی چینل پہ جب بجٹ کے حوالے سے عام لوگوں سے رائے لی جا رہی تھی تو ایک خستہ حال شخص جو حلیے سے کوئی مزدور یا کوئی ریڑھی بان لگتا تھا اس نے کہا کہ غریب آدمی کیلئے تو روز بجٹ آتا ہے اس کی بات میں کافی حد تک صداقت تھی کیونکہ غریب آدمی کو اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے روز ہی بجٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔2014 کے بجٹ میں کیے گئے اعلان اور وعدے کسی حد تک تو پورے کئے گئے لیکن مکمل طور پر دیئے گئے اہداف حاصل نہیں کئے جا سکے ۔گذشتہ مالی سال میں حکومت مہنگائی اور بے روز گاری پر قابو پانے میںیکسر ناکام رہی ہے۔اس کے علاوہ کسانوں کیلئے بھی گذشتہ سال مایوس کن رہا ،البتہ حکومت نے ملکی صنعتی پہیے کو رواں رکھنے کیلئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے ہیں ۔

قارئین کرام ! اگر دیکھا جائے تو بجٹ کسی بھی حکومت کی مالی پالیسیوں کی سمت کا تعین کرتا ہے اور ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کا آئینہ دار بھی ہوتا ہے ۔کسی بھی بجٹ کو عوام دوست بجٹ اسی وقت ہی کہا جا سکتا ہے جب عام آدمی کو بجٹ میں زیادہ سے زیادہ ریلیف ملے ،ملک صنعتی،تجارتی،اور زراعی شعبوں میں ترقی کرے۔راوں مالی سال کے بجٹ کیلئے 43 کھرب 13ارب روپے رکھے گئے ہیں ،یہ بجٹ تقریبا 16 کھرب 25 ارب روپے خسارے کا ہوگا ، ترقیاتی پروگراموں کیلئے 15 کھرب 13 ارب روپے رکھے گئے ہیں اس کے علاوہ تعلیم کیلئے 74 ارب اور صحت کیلئے تقریباً 23 ارب 67 کروڑ مختص کئے گئے ہیں 120ارب روپے کی ٹیکس رعایتیں ختم کر دی گئی ہے اور اب تقریباً 253 ارب کے نئے ٹیکس لگیں گے۔ سگریٹ ،موبائل فون ،کھیلوں کا سامان ٹیکسٹائل مصنوعات اس کے علاوہ چینی، دودھ دہی ،مکھن ڈیری مصنوعات ،منرل واٹر اور مشروبات مہنگے ہوں گے جبکہ بجری ،اینٹیں ،سولر اور زراعی آلات سستے ہوں گے ۔

Government

Government

حکومت اس بجٹ کو ایک متوازن اور عوام دوست کہہ رہی ہے ،جبکہ اپوزیشن نے اس بجٹ کو مسترد کر دیا ہے اپوزیشن کا کہنا کہ وفاقی بجٹ میں صرف امیروں کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے غریبوں کو اس بجٹ میں ریلیف نہیں دیا گیا، اس کے علاوہ اس کے علاوہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ بجٹ میں حکومت نے ٹیکسوں کی بارش کر دی ہے۔ قارئین! جہاں ایک عام آدمی کو بجٹ کا شدت سے انتظار ہوتا واہیں ایک اور طبقہ بھی ہے جس کو بجٹ کا انتظار سب سے زیادہ ہو تا ہے وہ طبقہ سرکاری ملازمین اور پینشرز کا ہے، یہ طبقہ موجودہ حکومت کیلئے تو کسی اور دنیا کی مخلوق لگتا ہے،کیونکہ پچھلے بجٹ میں بھی یہ طبقہ حکومت کے زیر عتاب رہا اور اس دفعہ بھی موجودہ حکومت نے سرکاری ملازمین کے حوالے سے اپنی راویت برقرار رکھی ہے ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں صرف 7.5 فیصد کا عبوری اضافہ کیا گیا ہے

اس کے علاوہ سرکاری ملازمین پر احسان عظیم کرتے ہوئے 25فیصد میڈیکل الاونس یعنی (300) روپے کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے، جبکہ کنوینس الاونس میں 1 فیصد بھی اضافہ نہیں کیا گیا ۔ اس کے علاوہ 2 یا 3 ایڈ ہاک الاونسز کو بنیادی تنخواہ میں ضم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا،اگر مہنگائی کا تناسب دیکھا جائے تو آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ یہ اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے ۔سرکاری ملازمین کی نمائندہ تنظیموں نے تنخواہوں میں 7.5 فیصد اضافے کو انتہائی کم اور ملازمین کے ساتھ ایک سنگین مذاق قرار دیا ہے۔ ان کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے تھا کہ بجٹ تیار کرتے وقت سرکاری ملازمین کی مالی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے تنخواہوں میں اضافہ کیاجاتا مگر ایسا نہیں کیا گیا ،سرکاری ملازمین کی نمائندہ تنظیموں نے وفاقی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے ملک بھر میں تحریک چلانے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

قارئین کرام! اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو اسے مختلف چیلنجز درپیش تھے جن میں سب سے بڑا چیلنج بجلی کا بحران تھا، کیونکہ بجلی کے بحران کی وجہ سے صنعتیں تباہی کے دہانے پر آن کھڑی ہوئیں تھیں ، بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے حکومت پوری تگ ودو سے کام کر رہی ہے ، اور امید ہے کہ حکومت آئندہ چند سالوں میں انرجی کے بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گی ۔ جیسا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈارنے اپنی تقریر میں بھی کہا ہے کہ 2017 تک حکومت بجلی کی لوڈ شیڈنگ مکمل ختم کرنے کا ہدف رکھتی ہے ،اس بجٹ میں بھی توانائی منصوبوں کیلئے248 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ملکی صنعتوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے موجودہ حکومت نے اہم اقدمات اٹھائے ہیں ، لیکن جہاں ملکی میعشت کو چلانے کیلئے صنعتوں کا کردار بہت اہم ہے

Agriculture

Agriculture

اسی طرح ملکی معیشت میں زراعت کو بھی ریڑھ کی ہڈی کی حثیت حاصل ہے ،ہمارے ملک کی تقریبا 50 فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے ،جو تقریبا نو کڑور کے لگ بھگ ہے ، پچھلے مالی سال کے دوران بھی کسان طبقہ انتہائی مایوسی کا شکار رہا ہے ۔اس دفعہ بھی جہاں ایک طرف صنعتی اور تجارتی تنظیمیوں کی جانب سے اس بجٹ کو خوش آئندکہا جارہا ہے ،دوسری طرف کسان طبقہ اس بجٹ سے نالاں نظر آتا ہے۔ رہی بات عام عوام کی تو عام آدمی کا مسئلہ آٹا ،چینی ، گھی ، دالیں ،دودھ،سبزیاں اور گوشت ہے جن کو کھا کر غریب آدمی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے ۔(یار لوگوں ) کا کہنا ہے کہ حکومت ان اشیاء کی قیمتوں میں کمی کرے ،اگر کمی نہیں تو کم از کم ان اشیاء کی قیمتوں کو بڑھنے سے روکے ۔ عام آدمی کا دوسرا بڑا مسئلہ بھاری بھرکم یوٹیلیٹی بلز ہیں جن کو ادا کرنے کے بعد عام آدمی کے پاس روٹی کھانے کے پیسے بھی نہیں بچتے

حکومت کو چائیے کہ وہ فی الفور پانی، بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی لائے ،اس کے علاوہ عام آدمی کا تیسرا بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کے دن بدن بڑھتے ہوئے کرائے ہیں ، کرایوں میں اضافے کی وجہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہے ،حکومت کو چاہیے کے وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو بھی کنٹرول میں لائے اور اس کے علاوہ بیروز گاری کے خاتمے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر پالیسی ترتیب دی جائے ،تب جاکر ہی اس بجٹ کو عوام دوست بجٹ کہا جا سکتا ہے ۔

M.M Ali

M.M Ali

تحریر: ایم ایم علی