امام ابن تیمیہ تاریخ اسلام کی عہد ساز شخصیت جزو 2 (ربنا تقبل منا)

Imam Ibn Taymiyyah

Imam Ibn Taymiyyah

تحریر : شاہ بانو میر
“” انبیاء درہم و دینار نہیں چھوڑتے تھے بلکہ علم کی وراثت چھوڑتے تھے “” خوش نصیبی ہے کہ ہم ان کی میراث سے حصہ پا رہے ہیں۔ علم کے سفر میں جہاں مشکل ہو استغفار کریں اپنے رب سے کہیں کہ مجھے سمجھا دے٬ میری دشواری آسان کر دے٬ اس کے بعد کہیں اٹکل ہو تو نا سمجھنے کی شکایت کی بجائے امام تیمیہ کی طرح استغفار کو معمول بنائیں ٬ جہاں کہیں انہیں کوئی نقطہ سمجھ نہ آتا وہ استغفار کرتے٬ کئی بار صبح سے ظہر تک مستقل استغفار میں مصروف رہتے۔

عربی کا مشہور شعر ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ٬ علم نور ہے اور یہ کسی گناہ گار کو نہیں ملتا٬ اس نور کا دل میں اترنا تب ممکن ہے جب گناہوں سے نجات ملے٬ علم کو مفید انداز میں حاصل کرنے کیلئے کچھ آداب بیان کئے گئے ہیں بہترین علم کیلیۓ ان کو جاننا ضروری ہے۔

“”اخلاص”” علم اور عمل سے پہلے ہوتا ہے٬ اخلاص شکر گزاری دعا استغفار ( ان سب کیلئے ریا کاری سے پاک دل آنسوؤں سے لبریز آنکھیں عاجزی انکساری درد سے دعا ضروری ہے) ان اصولوں سے ہم تزکیہ نفس کرنے کے بعد دنیا میں اسلام کیلئے حقیقی خدمات سر انجام دے سکتے ہیں٬ امام ابن تیمیہ کے بارے میں کچھ قابل قدر معلومات جو دل میں نیا شعور بیدار کر کے دین کیلیۓ کچھ کرنے کا موجب بنتی ہیں۔

نام
(امام ابن تیمیہ )
احمد بن عبدل الحلیم
لقب تقی الدین
کنیت ابوالعباس
مشہور ابن تیمیہ
دمشقی

ان کی مشہوری درج ذیل علوم میں مہارت کی وجہ سے تھی٬ امام٬ فقہیہ ٬ محدث٬ مجتہد٬ حافظ٬ مفسر٬ زاھد٬ اصولی ایک شخصیت اور علم کا خزانہ بے بہا٬ ان کی زندگی کے حالات سن کر اور ان کی تصنیفات کی تعداد سن کر ایک انسان حیران ہو جاتا ہے کہ کیا محض 67 سال کی عمر میں اُس دور میں جبکہ مشینیں ناپید تھیں کمپیوٹر کا کوئی وجود نہیں تھا ٬ قلم سیاہی کے ساتھ سیکروں کُتب لکھ دینا اور پھر ہماری طرح اپنی سوچ پر نہیں لکھنا باقاعدہ تصدیق شدہ کلام وہ بھی ازروئے قرآن سنت سے ٬
سبحان اللہ بے شک اللہ پاک جسے چاہے جو چاہے عطا فرما دے ٬ آج ہم لوگوں کا یہ حال ہے کہ کسی بھی شعبہ میں کچھ کمال حاصل ہو تو گردن کا اکڑ جانا یقینی ہے۔

ہم اسے فرعونی سوچ کے ساتھ صرف اپنی محنت کی وجہ بیان کرتے ہیں ٬
جبکہ قرآن مجید میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ الحدید 29 یہ(باتیں ) اس لئے( بیان کی گئی ہیں) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ اللہ کے فضل پر کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے اور یہ کہ فضل اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے٬ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے”” ایک اہل علم کو کس قدر بردبار کس قدر حلیم اور عاجز ہونا چاہیے وہ امام ابن تیمیہ سے سیکھا جا سکتا ہے٬ استغفار کی کثرت اور اپنے رب کے قادر ہونے کا اظہار ان کی تحریروں میں رویے میں قدم قدم پر ملتا ہے۔

قید و بند کی صعوبتیں اپنے رب کے یقین پر اور اس اعتماد پر ہنستے کھیلتے گزار دیں کہ لوگوں سے دور خاموشی میں وہ اپنے رب کےا ور قریب ہوں گے ٬ ایسا توکل ایسا یقین کہ اللہ نے بھی اپنے بندے کی زندگی اپنی ملاقات کے وعدے پر کروا دی٬ آئیے ان کی زندگی کے بارے میں اہم معلومات جانتے ہیں یہ کون تھے؟ کہاں پیدا ہوئے اور علمی خدمات کیا تھیں ؟ امام ابن تیمیہ کا اصل نام احمد تھا اور آپ ربیع الاول کی 10 تاریخ 661 ہجری میں ترکی کے شہر “”احران”” میں پیدا ہوئے٬ یہ شہر اہل علم کا شہر تھا لوگوں میں علمی بحثیں ہوتی تھیں ِ لوگ عصری علوم میں مشغول رہتے تھے یہاں فلسفہ بحث کیلیۓ مشہور تھا٬
آپ6 سال کی عمر تک وہاں رہے ٬ 7 سال کے تھے تو تاتاریوں کے حملے کے ڈر سے شام کے شام کے شہر “”دمشق”” کی طرف بے سرو سامانی کی حالت میں خاندان روانہ ہوا۔

ان کے اسلاف کی کتب نادر خزانہ تھیں اسی لئے کاندان والوں نے سامان کی بجائے صرف بزرگوں کی کتابوں کا خزانہ اٹھایا ٬ قافلہ٬ کتابوں والے چھکڑے ٬ بچوں٬ عورتوں کے ساتھ سست رفتاری کے ساتھ چل رہا تھا ٬ قدم قدم پر تاتاریوں کے بلوے کا خوف اور ہیبت ناک خبریں ان کو سہمائے ہوئے تھیں ٬ چھکڑا بھی خود کھینچ رہے تھے اس لئے قافلہ بہت سست رفتار تھا ایک مرتبہ تاتاری سر پے پہنچنے والے تھے اور گاڑی چل نہیں رہی تھی قافلے والوں نے زار و قطار روتے ہوئے اللہ سے مدد مانگی وہ خطرہ اللہ نے ٹال دیا ٬ یوں یہ بخیریت دمشق پہنچ گئے٬
جاری ہے۔

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر