رجب طیب اردوغان اور پاکستان

Rajab Tayyip Erdoğan

Rajab Tayyip Erdoğan

تحریر : سید کمال حسین شاہ
رجب طیب اردوغان ایک ترک سیاست دان، استنبول کے سابق ناظم، جمہوریہ ترکی کے سابق وزیر اعظم اور بارہویں منتخب صدر ہیں۔ رجب28 اگست 2014ء سے صدارت کے منصب پر فائز اور عدالت و ترقی پارٹی (AKP) کے سربراہ ہیں جو ترک پارلیمان میں اکثریت رکھتی ہے …اکتوبر 2009ء میں دورۂ پاکستان کے موقع پر رجب اردوغان کو پاکستان کا اعلی ترین شہری اعزاز نشان پاکستان سے نوازا گیا۔علاوہ ازیں جامعہ سینٹ جانز، گرنے امریکن جامعہ، جامعہ سرائیوو، جامعہ فاتح، جامعہ مال تپہ، جامعہ استنبول اور جامعہ حلب کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند سے بھی نوازا گیا ہے۔

فروری 2004ء میں جنوبی کوریا کے دار الحکومت سیول اور فروری 2009ء میں ایران کے دار الحکومت تہران نے رجب اردوغان کو اعزازی شہریت سے بھی نوازا۔15 جولائی 2016 کی شب فوج کے ایک دھڑے نے اچانک ہی ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کر دیا لیکن بغاوت کی اس سازش کو تر ک عوام نے سڑکوں پر نکل کر، ٹینکوں کے آگے لیٹ کر ناکام بنادیا اور یہ ثابت کیا کہ اصل حکمران وہ ہے جو لوگوں کے دلوں پر حکومت کرے ۔صدر رجب طیب اردوانے ترکی کو پاکستان کا حقیقی معنوں میں برادر ملک قرار دیا ہے ۔ پاک ترک تعلقات کو مثالی بنائیں، کشمیر کے متعلق پاکستان کے مؤقف کی غیر مشروط حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل، ہندوستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اظہارتشویش ،ترکی کے صدر طیب اردوان کو نہ صرف ترکی بلکہ پاکستان میں بھی انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور طیب اردوان واحد شخص ہیں جنہیں پاکستان کی پارلیمنٹ سے تین دفعہ خطاب کا اعزاز حاصل ہے ۔دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں پاکستانی باشندوں کو عزت و احترام حاصل ہے اور پاکستانی وہاں جا کر اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیںوہ ملک امریکہ یا یورپ نہیں بلکہ برادر اسلامی ملک ترکی ہے ۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان دیرینہ، خوشگوار، لازوال اور گہرے تعلقات ہیں جن پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔

پاکستان کو تسلیم کرنے والے ممالک میں ترکی صف اول میں شامل تھا جب دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کا قیام عمل میں آیا تو ترک سفیر کی اسناد وصول کرتے ہوئے قائداعظم نے دونوں ممالک کے مابین موجود روحانی، جذباتی اور تہذیبی رشتوں کا بالخصوص ذکر کیا۔ ترکی دنیائے اسلام کا واحد ملک ہے جس سے ہمارے انتہائی گہرے مراسم گزشتہ 70 سال سے تسلسل سے قائم ہیں۔ ترکی اور پاکستان میں دوستی کا باضابطہ معاہدہ 1951ء اور باہمی تعاون کا معاہدہ 1954ء میں وجود میں آیا جس کے الفاظ کچھ یوں تھے ’’ترکی اور پاکستان کے درمیان دوستی کے جذبے کے ساتھ طے پایا ہے کہ سیاسی، ثقافتی اور معاشی دائروں کے اندر اور اس کے ساتھ امن اور تحفظ کی خاطر ہم زیادہ سے زیادہ دوستانہ تعاون حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہیں گے ‘‘۔ پاکستان نے 1954ئمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان نے قبرص کے مسئلے پر ترکی کا بھرپور ساتھ دیا…پاکستان دفاعی معاہدہ بغداد میں ترکی اور عراق کے ساتھ شریک رہا ہے ۔ 1965ء کی جنگ میں ترکی نے پاکستان کو فوجی سازوسامان، اسلحہ گولہ بارود اور توپیں فراہم کیں۔ پاکستانی زخمی فوجیوں کے لئے ڈاکٹرز اور نرسوں کے وفود 1965ء اور 1971ء میں ترکی سے پاکستان آئے 1964ء میں معاہدہ استنبول کے تحت ترکی، ایران اور پاکستان کے درمیان علاقائی تعاون برائے ترقی (آر۔سی۔ڈی) کے نام سے موسوم تنظیم وجود میں آئی۔ اگرچہ اِس تنظیم نے تینوں ممالک کے درمیان تجارتی، سیاحتی اور ذرائع آمدورفت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

آج کل یہ تنظیم علاقائی معاشی کونسل کہلاتی ہے ۔ آج کل پاکستان خصوصاً پنجاب کے بڑے بڑے شہروں لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد میں ویسٹ مینجمنٹ اور کئی بجلی گھر سڑکوں کی تعمیر جیسے منصوبے ترکی کے تعاون سے چل رہے ہیں۔ میاں نواز شریف ترک صدر رجب اردوان سے بے حد متاثر ہیں مگر انہیں اپنے عوام پر اس قدر دسترس حاصل نہیں ہے کہ ان کے ایک اشارے پر عوام ٹینکوں کے آگے لیٹ جائیں گے ۔ یہ خوش نصیبی صرف اردوان کے لئے ہی خدا نے مخصوص کی۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔والہانہ محبت کا اظہار 2005ء کے شدید زلزلہ کے بعد متاثرین کے ساتھ تعاون سے بھی دیکھا جا سکتا تھا…ترکی اور پاکستان کے باشندوں سچے کھرے اور مخلص دوست ہیں…2010 ئ
میں پاکستان میں بد ترین سیلاب آئے ، اس موقع پر ترک خاتون اول نے متاثرین کی مدد کے لیے جس مخلصانہ جذبے کے ساتھ کام کیا اور عطیات جمع کیے ،پاکستان اور ترکی مسلم دنیا کے دو اہم ستون ہیں۔

اس کی وجہ دونوں ممالک کی مشترکہ تاریخ اور ثقافت کے گہرے بندھن اور دونوں ممالک کے درمیان لازوال دوستی اور اقتصادی تعلقات انتہائی مضبوط ہیں …ہ پاکستان اور تر کی کے عوام میں کئی اقدار مشترک ہیں جو باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے بروئے کار لائی جا سکتی ہیں… تر کی پاکستان کو اپنا بھائی تصور کرتا ہے …خلافت عثمانیہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے مجھے ہمیشہ سے ترکی اور ترکی کے لوگوں سے محبت رہی ہے …تحریک خلافت میں قربانیوں کی انوکھی داستانوں سے ملتی ہے ،ترک صدر نے اپنے پہلے دورۂ پاکستان میں اس کا حوالہ بھی دیا۔ترکی کی سرحدیں تو پاکستان سے نہیں ملتیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ترکی اور پاکستان کے دل آپس میں ملتے ہیں۔ ترکیہ جمہوریہ، دنیا کا ایک ایسا منفرد ملک ہے جس کے باسیوں کے تعلقات سرزمینِ پاکستان میں بسنے والے لوگوں سے قیامِ پاکستان 1947ء بلکہ قراردادِ لاہور 1940ء سے بھی پہلے تاریخ میں نمایاں طور پر ملتے ہیں۔ترکی اور پاکستان کے درمیان گہرے ، لازوال اور بے مثال تعلقات دونوں ممالک کے عوام کیلئے ایک ایسا اثاثہ ہیں جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے ۔ موجودہ دور میں اس قسم کے تعلقات کی دنیا میں کہیں بھی نظیر نہیں ملتی۔ یہ دونوں ممالک یک جان دو قالب ہیں۔ دنیا میں ترکی واحد ملک ہے جہاں پاکستان اور پاکستانی باشندوں کو اتنی عزت اور احترام حاصل ہے کہ پاکستانی یہاں پر اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

بین الاقوامی پلیٹ فارم پر پاکستان کا بھرپور ساتھ دینے کے لحاظ سے شاید ہی کسی دیگر ملک نے پاکستان کی اس قدر کھل کر حمایت کی ہو جس قدر ترکی نے کی ہے ۔ ترکی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے لے کر دنیا کے مختلف بین الاقوامی اداروں میں تنظیم اسلامی کانفرنس کے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہونے کے ناتے جو کردار ادا کیا اور بھارت کی ناراضی کی ذرّہ بھر بھی پروا نہ کرتے ہوئے پاکستان کے موقف کی جس طریقے سے ترجمانی کی ہے شاید ہی کسی دیگر ملک نے کی ہو۔ اس طرح قبرصی ترک جو 1974ء کی قبرص جنگ میں تنہا رہ گئے تھے صرف پاکستان ہی نے اپنے ترک بھائیوں کی جانب مدد کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ پاکستان نے قبرص کی جنگ کے موقع پر اپنے جنگی طیاروں کو ترکی کی نگرانی میں دینے کے بارے میں جو کھلا چیک دیا تھا اور بعد میں پاکستان نے شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کا بیورو (سفارت خانے کی سطح کا دفتر) کھولتے ہوئے اپنی دوستی کی مہر ثبت کر دی تھی۔ رجب طیّب ایردوان اور پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے خیالات اور سوچ میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے …مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرانے کے لیے پاکستان اور ترکی سرگرم…پاکستان اور ترکی نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری سفارتی کشیدگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

زندہ باد پاکستان۔ زندہ باد ترکی اور زندہ و پایندہ باد ترکی اور پاکستانی دوستی

Syed Kamal Hussain Shah

Syed Kamal Hussain Shah

تحریر : سید کمال حسین شاہ