نو مور ڈو مور

Pakistan

Pakistan

تحریر : شاہ بانو میر

فانوس بن کر جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیابجھے جسے روشن خُدا کرے

کولیشن پارٹنر کا جب جی چاہتا ہے برابری کی سطح سے ایکدم اوپر اٹھ کر جو جی چاہتا ہے کہ ڈالتا ہے٬ کولیشن سپورٹ کو بند کرنے کا عندیہ اور فوری طور پے حقانی نیٹ ورک کو ختم کرنے کی دھمکی بصورت دیگر؟اللہ اکبریہ ہے ہمارا وہ پارٹنر جو 1971 میں بھی آنکھوں کے پتھرانے تک نہ پہنچا اور 80 کی دہائی میں افغانستان میں پاکستان کو دھکیل کر 80 لاکھ افغان مہاجرین کا بار ہم پے ڈال کر اس نے پلٹ کر نہ پوچھا٬بڑی تعداد میں افغانستان میں موجود نیٹو فورسسز کے ہوتے ہوئے کامیابی نہیں ملی تو اس ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کیوں؟ پاکستان سے آپ کے اسلحے کی کھیپ افغانستان میں پہنچتی ہے ٬ آپ کے طویل قیام کا سبب یہی ترسیل تھی اگر اسے روک دیا جاتا تو آپ کا وہاں قیام ناممکن تھاباوجود جدید ہتھیاروں اور نئی ٹیکنالوجی کے افغانستان میں آپ کی ناکامی دراصل اس فلسفے کی جیت ہے کہ “” ملک جس کا ہوتا ہے جیت اسی کی ہوتی ہے””٬ گزشتہ سترہ سالوں میں 3 ہزار کے قریب ہلاک امریکی سپاہی اور اتنے ہی زخمی ہو کر بھی آپ افغانستان کو مسخر نہیں کر سکے٬جنگ آپ کی تھی مگر بھگتنا پاکستان کو پڑا پورا ملک ادھیڑ کر رکھ دیا گیا۔

نقصان کا عام تخمینہ 1 ارب سے تجاوز کردہ اعداد و شمار ہر خاص و عام جانتا ہے٬ قتل عام ایسا کہ ملک میں سول ملٹری ادارے ہوں یا نہتے افراد کسی کو نہیں بخشا گیا٬آگ اور خون کی ہولی ہے جو اس ملک میں کئی سالوں سے کھیلی جا رہی ہے٬اپنے ملک میں بے اماں ہم وطن صرف اس پاداش میں کہ آپ کا ساتھ دیااس ملک میں بم دھماکے ڈرون کے خوف نے ذہنی امراض کو خطرناک حد تک قبائلی علاقہ جات میں پھیلا دیا ہے کون ذمہ دار ہے؟یہ تقریر بھارت نواز تھی اور انہیں خوش کرنے کا موجب بنی٬ جبکہ پاکستان جس نے ہمیشہ امریکہ کا ساتھ دیا اسے سختی سے سرزنش کی گئی ٬پاکستان کے ہر تعاون سے انکار کر کے جلد اپنے انداز میں تبدیلی لانے کا کہنا ہر پاکستانی کیلیۓ دل آزاری کا باعث بنی ہے۔

آج جب ہم بہتری کے سفر کی طرف گامزن ہے ایسے میں دنیا سےکامیابیوں پر شاباش کی بجائے یہ سب سننا پڑا ٬جبکہ نیا پاکستان ابھر رہا ہے٬ تاریکیوں کو چِیرتا ہوا روشنی کے احاطوں میں داخل ہوتا پاکستان غیور قوم کا سرپرست ہے٬خود مختار خود دار قوم ٬ ایسی قوم جس نے مال نہیں لیا خون دیا ہے اور آزادی لی ہے ٬حمیت اور جرآت کے ساتھ اس قوم اور اس کے جوانوں نے نے ہر چیلنج کو قبول کر کے پاکستان کا پرچم ہمیشہ سر بلند رکھنے کی کوشش کی ہے٬جدید دنیا کا انداز لئے اور تفکر کے ساتھ مستقبل کو سنہرا بنانے کے ارادے ہر پاکستانی کے ہیں۔

ایسے میں جب ملک میں تروتازہ فضائیں پھر سے داخل ہو کر قوم کو نکھارنے آئی ہیں تو ہمیشہ کی طرح پھر دھمکی دی گئی ٬دھمکی بھی وہ دے رہے ہیں کہ جن کی بات مان کر ہم نے برادر ملک کے ساتھ تعلقات خراب کئے٬افغان جنگ میں بھارت نے بڑی قوتوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے اندر خوں ریزی کا ایسا کھیل کھیلاکہ جس میں اس ملک کے محتاط اندازے کے مُطابق 70 ہزار سے زائد پاکستانی اب تک شہید ہو چکے ہیں۔

پاکستان کے بڑے ابھی سر جوڑے سوچ و بچار میں گُم تھے کہ اس تقریر کا کیا جواب دیا جائے٬اسی اثنا میں سب سے پہلے عظیم ملک چین کی وزیر خارجہ نے اس تقریر کو آڑے ہاتھوں لیا ٬ ان کا کہنا تھا کہدنیا کو پاکستان کی قربانیوں کوماننا ہوگا٬پاکستان نے سخت ترین حالات کا مقابلہ کیا ہے اور دہشت گردی کی جنگ کو جیتا ہےہمارے وزیر خارجہ نے ابتدائی بیان جاری کیا ہے۔

ملکی سیاسی قیادت یک زبان ہو کر سراپا احتجاج ہے کہ”” اب نو مور ڈو مور “”اس تقریر کے بعد آرمی چیف جنرل باجوہ نے امریکی سفیر سے ملاقات کی اور شدید تحفظات سے آگاہ کیا ٬انہوں نے برملا کہا کہ انہیں مدد نہیں اعتماد چاہیے اور بے شمار قربانیوں کا اعتراف چاہیے٬روز شہید ہوتے جوانوں کے سپہ سالار پاکستان سے زیادہ پُرا ثر دلائل پر مبنی حقیقی تجزیہ کون پیش کر سکتا تھا؟جانوں کی قربانیاں ایکدم مسترد کرتے ہوئے پھر”” ڈو مور “”کا مطالبہ ساتھ سنگین دھمکیاں کیوں؟عمر ؒ کا جذبہ آج فوج میں ہے اسی لئے تو آج فوج نے سینہ تان کر کہا ہے کہ ہم نے امداد نہیں لی خون سے سینچا ہےاس دھرتی کو تب بچایا ہے ٬ہماری محنت کو حکمت عملی کو اور کامیابی کو مانا جائے اسے یوں نظر انداز نہ کیا جائے ٬پاکستان کو اسکی خاص خِطے کی اہمیت اور نیو کلئیر پاور ہونے کی حیثیت سے ذمہ دار اور باوقار ملک کے طور پے جانا جانا چاہیے٬ ایٹمی اثاثہ جات محفوظ اور ذمہ دار ہاتھوں میں ہیں۔

پاکستان کوئی نو زائیدہ ریاست نہیں بلکہ دنیا میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ذہنوں میں ابھرتی ہوئی مضبوط خود دار قوم ہے٬ جس کا احترام ہر ملک کو ہر قوم کو کرنا چاہیے٬تاریخ گواہ ہے کہ یہ قوم انحصار نہیں کرتی کسی غیر ملکی مدد پر٬ حالات جیسے بھی ہوں یہ لڑنا اور خود کو بچانا قائم رکھنا جانتی ہے ٬باہمی احترام اور رواداری کے ساتھ تمام متنازعہ معاملات کو برابری کی سطح پے حل کرنا چاہیے تو حاضر ہیں ٬ورنہ پوری قوم اور سیاسی قیادت کا کسی بھی ممکنہ دھمکی اور ترش زبان پے ایک ہی جواب سنا جا رہا ہے ۔

“” نو مور ڈو مور”” ملکی سالمیت اور تحفظ پے نچھاور ہونے والوں کی سرزمین 27 رمضان المبارک 1947 میں معرض وجود میں آئی ٬ اس کی حفاظت وہ کرے گا جس نے اپنے نام کی سربلندی کیلیۓ ہمیشہ دنیا کو معجزے دکھائے ہیں٬ آرمی چیف نے دو ٹوک الفاظ میں ہر دھمکی کا یوں جواب دیا کہ

اے طائر لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر