سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عظیم سنت… قربانی

Qurbani

Qurbani

تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
اللہ تبارک و تعالیٰ کا روز ازل سے ہی ضابطہ رہا ہے کہ محبوبان بارگاہ الٰہی کو امتحان اور آزمائش کی سخت ترین منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے، اور قدم قدم پر جاں نثاری او رتسلیم ورضا کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد تمام مخلوقات میں انبیائے کرام علیہم السلام کا مرتبہ ہے، اور وہی اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب واقرب ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی گئی آزمائش میں پورے اترے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے ربّ کریم کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔ انبیائے کرام علیہم السلام کو اشاعت دین کی محنت کے سبب امتحان وآزمائش سے دو چار ہونا پڑا، ہر نبی اور رسول کے امتحان کا انداز مختلف تھا۔ اللہ تعالیٰ کے انہیں برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں، آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر اور تسلیم ورضا اور اطاعت ربانی کے پیکر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا خلیل ( گہرا دوست) قرار دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی استقامت دین کے لیے پیش کی جانے والی عظیم قربانیوں سے عبارت ہے۔ اللہ ربّ العزت کو آپ علیہ السلام کا جذبہ قربانی و استقامت اسقدر پسند آیا ،کہ یہی جذبہ قربانی ہر دور کے لیے ایمانی معیار اور کسوٹی قرار دیا گیا ہے۔ آپ علیہ السلام ہر امتحان وآزمائش میں کامیاب وکامران ہوئے۔ یہاں تک کہ عقیدہ توحید بیان کرنے او ربت شکنی کی پاداش میں آپ علیہ السلام کو بادشاہ نمرود نے آگ میں ڈالا تو آپ علیہ السلام عظمت دین اور عقیدہ توحید کی سر بلندی کے لیے پوری طرح ثابت قدم رہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کا فرمان مبارک جاری ہوا ” ہم نے حکم دیا آگ کو، اے آگ! سرد ہو جا اور ابراہیم علیہ السلام پر سلامتی والی ہو جا” ( سورة الانبیاء آیت 69) ۔ شاعر مشرق علامہ محمداقبال نے اس حقیقت کو بہت خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے۔

آج بھی ہو جو ابراہیم علیہ السلام کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

ابھی یہ آزمائش ختم نہ ہوئی تھی کہ اس کے بعد پنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور بیوی حضرت حاجرہ کو فاران کے بیابان میں چھوڑنے کا حکم ملا۔ یہ بھی کوئی معمولی امتحان نہ تھا، سخت آزمائش کا مرحلہ تھا۔ بڑھاپے کی تمناؤں کا مرکز، راتوں اور دنوں کی دعاؤں کا ثمر، قلب ونظر کا چراغ سیّدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام، جس کو آپ صرف حکم الٰہی کی تعمیل میں ایک بے آب وگیاہ مقام پر چھوڑ آتے ہیں، اس طرح کہ پیچھے مڑکر بھی نہیں دیکھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شفقت پدری جوش میں آجائے اور حکم ربانی کی تعمیل میں لغزش ہو جائے۔ ان کٹھن منزلوں کو عبور کرنے کے بعد اب تیسری آزمائش کی تیاری ہے، جو پہلے دونوں امتحانوں سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تین رات متواتر خواب دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں ” اے ابراہیم ! تو ہماری راہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کر دے” حضرت ابراہیم علیہ السلام تسلیم ورضا اور اطاعت ربانی کا پیکر بن کر تیار ہو گئے۔چوں کہ اس امتحان وآزمائش میں بیٹا بھی شریک تھا اس لیے باپ نے اطاعت شعار اور فرماں بردار بیٹے کو اپنا خواب اوراللہ تعالیٰ کا حکم سنایا اور اپنے نو عمر فرزند سے پوچھا ، اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہاہوں ، بتا تیری کیا مرضی ہے ؟ ” حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے رائے اس لیے نہیں پوچھی کہ اگر بیٹے کی رائے ہو گی تو ایسا کروں گاورنہ میں اپنے بیٹے کو ذبح نہیں کروں گا۔ نہیں !نہیں! ایسا ہر گز نہیں۔ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رائے اس لیے پوچھی تھی کہ میری نبوت کا وارث اس آزمائش میں پورا اترتا ہے یا نہیں اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اللہ کے حکم کے بارے میں بیٹے کا تصور کیا ہے؟

حضرت اسماعیل علیہ السلام کی فرمابرداری دیکھئے ،وہ بیٹا بھی تو کوئی عام بیٹانہیں تھا ، وہ بھی آخر خلیل اللہ کا فرزند ارجمند تھا، اور اپنے والد کی طرح اول العزم، ثابت قدم ، عزیمت واستقامت، تسلیم ورضا اور اطاعت ربانی کے پیکر تھا ۔ اگر باپ خلیل اللہ کے مرتبہ پر فائز تھا تو بیٹے کے سر پر بھی ذبیح اللہ کا تاج سجنے والا تھا، کیونکہ آپ علیہ السلام ہی کی صلب اطہر سے آقائے دو جہاں ،تاجدارانبیائ،شفیع روزجزا، جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،اپنے نورمبین سے اس جہان کو دائمی روشنی سے منور کرنے والے تھے۔ اس لیے وارث نبوت نے بھی اطاعت کی حد کر دی۔آپ علیہ السلام نے اپنے باپ کے آگے سر کو جھکا دیا اور یہ بھی نہیں پوچھا کہ ابا جا ن مجھ سے کیا جرم سر زد ہوا ہے ؟میری خطا کیا ہے؟ جو آپ مجھے موت کے حوالے کرنے جا رہے ہیں، بلکہ قربان جائوں! اس بیٹے پر جس نے نہایت عاجزی وانکساری سے اپنے باپ کے آگے گردن جھکاتے ہوئے جوکلمات اپنی زبان سے ارشاد فرمائے وہ قیامت تک نسل انسانی کے لیے مشعل راہ بن گئے۔ چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا (ترجمہ) ”اس (بیٹے) نے کہااے ابا جان!آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیاہے، انشاء اللہ ! آپ مجھے عنقریب صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ ( الصفّٰ، آیت 102 )۔

یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

اے اباجان! میں روئوں گا نہیں اور نہ ہی میں چلائوں گا اور نہ ہی آپ کو اس کام سے منع کروں گا،اب آپ چلئے اور اس حکم کی تعمیل میں دیر نہ کیجئے۔انشاء اللہ ! آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے”۔ اب آگے بڑھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے عشق میں اپنی گردن مبارک زمین پر رکھ دی ، اور باپ نے چھری کو چلانا شروع کیا تو آسمان دنیا کے فرشتے پہلی دفعہ اطاعت خداوندی اور تسلیم و رضا کا یہ عالی شان منظر دیکھ کر ششدر رہ گئے ، قریب تھا کہ چھری چل جاتی ، لیکن اللہ کریم کی طرف سے ندا آئی ، اے ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا ، یہ ایک بڑی آزمائش تھی تم اس میں کامیاب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے جنت سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے قربانی کیلئے ایک دنبہ بھیج دیا ، اور یوں یہ سنت ابراہیمی قیامت تک ہر صاحب استطاعت پر واجب کردی ۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جانب سے بارگاہ خدا وندی میں حضرت اسماعیل کی یہ قربانی، ایک عظیم اور یاد گار قربانی تھی جس کی مثال دینے سے آج تک دنیا قاصر ہے۔ چشم فلک نے بھی اطاعت الٰہی کا ایسا منظر نہ دیکھا تھا۔ صبرو استقامت اور جاں نثاری بھی محو حیرت تھے کہ ایسا باپ جسے بڑھاپے میں اولاد نصیب ہوئی، اسی پر وہ چھری پھیرنے چلا ہے۔

خدائے پاک نے خود ان کی ایسی تربیت کی تھی
شعور و فکر و دانائی کی وہ دولت انہیں دی تھی

اللہ ربّ العالمین کی جناب میں قربانی کا ثبوت انسانی تاریخ کے آغاز ہی سے ملتا ہے۔ بنی نوع انسان کے والدحضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی کا ذکر قرآن کریم میں کچھ اس طرح ہے ” اور سنا دیجیے، انہیں حال آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا سچا، جب کہ ان دونوں نے قربانی پیش کی، تو ان دونوں میں سے ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہ ہوئی ، تو اس (قابیل) نے کہا ، میں تجھے ضرور قتل کردوں گا، اس ( ہابیل) نے کہا بے شک ، اللہ تو پرہیز گاروں ہی سے قبول فرماتا ہے۔” (سورة المائدة، آیت27) اس کے بعد بھی تقریباً تمام الہامی اور غیر الہامی مذاہب او رمعاشروں میں قربانی کا تصور ہمیں ملتا ہے۔ لیکن یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کو پوری تاریخ انسانی میں ایک منفرد اور بلند مقام حاصل ہے۔ تاریخ کے اوراق اس عظیم قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کی اس عظیم المرتبت قربانی کو تا قیامت امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قانون الٰہی بنا دیا گیا ہے۔

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض صحابہ نے عرض کیا ” یا رسول اللہ ! ان قربانیوں کی حقیقت اور تاریخ کیا ہے ؟ ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” یہ تمہارے ( روحانی اور نسلی) مورث حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔” صحابہ کرام نے عرض کیا”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ان قربانیوں میں ہمارا کیا اجر ہے ؟ ” رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے۔” (مسند احمد، سنن ابن ماجہ) اسی طرح ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”یوم النحر (دس ذوالجہ) میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں ہے۔ اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگ ، بال او رکھروں کے ساتھ آئے گا۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام قبولیت کو پہنچ جاتا ہے۔ لہٰذا! اسے خوش دلی سے کرو۔” (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ) حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف قربانی کے فضائل او رحکم بیان نہیں فرمایا، بلکہ ان پر عمل کرکے بھی دکھلایا ہے۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں” رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں دس سال مقیم رہے ، اس عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سال قربانی کی۔” (مشکوٰة ترمذی) جبکہ حضرت انس فرماتے ہیں ” اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی دو ہی مینڈھوں کی قربانی کیا کرتا۔”

اگر ایک جانب قربانی کا حکم اور اس کے فضائل وارد ہوئے ہیں تو دوسری جانب قربانی نہ کرنے والے کے بارے میں بھی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جسے وسعت ہو اور اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے” (ابن ماجہ)۔ عیدالاضحی پر جانوروں کی قربانی جہاں ایک عظیم عبادت ہے، وہاں تجدید عہد وفا بھی ہے۔ قربانی درحقیقت اس وعدے کو دہرانے کا نام ہے کہ ہمارا جینا، ہمارا مرنا او رہماری پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ یہی ایک مسلمان کی زندگی کا حقیقی مقصد ہے۔ بندگی کے اظہار کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنا بندہ مومن کا شیوہ ہے۔ قربانی کا مقصد اصلی تقویٰ اورپرہیز گاری کا حصول ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے” خدا تک نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون، بلکہ اس تک تمہاری پرہیز گاری پہنچی ہے” (سورة الحج)۔ عظیم سنت ابراہیمی ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ہم دین کی عظمت وسر بلندی، اسلام کی ترویج واشاعت، اعلائے کلمة اللہ، اسلام کی بقاء اورامت مسلمہ کے اتحاد کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔بلاشبہ جذبہ قربانی کا شوق بارگاہ الٰہی میں ہمارے تقویٰ کا اظہار اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔

Rana Aijaz Hussain

Rana Aijaz Hussain

تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
ای میل: ranaaijazmul@gmail.com
رانااعجاز حسین رابطہ نمبر:03009230033