سرن اور پاکستانی طالب علم

CERN

CERN

تحریر : میمونہ صدف
سرن سے مراد The European Organization for Nuclear Research ہے ۔ یہ ادارہ بنیادی طور پر فزکس ، میٹا فزکس ، ڈارک میٹر پر تحقیق کے لیے بنایا گیا ہے ۔ آغاز میں چند ممالک شامل تھے ۔یہ لیبارٹری سوٹرز لینڈ اور فرانس کی سرحد کے قرب میںواقع ہے ۔ یہاں 575 فٹ کے قریب زیر زمین ایک دھاتی سرنگ ہے جس میں پیچیدہ مشینری نصب کی گئی ہے ۔اس مشینری کا نام سرن ہے اور اسی مشینری کے نام پر اس لیبارٹری کا نام رکھا گیا ہے ۔ سرن ایک ایسی مشین کا نام ہے جس کا حجم کئی ٹن ہے ۔سرن کو بنانے کے لیے 9600 سپر مقناطیس کا استعمال کیا گیا ہے جو کہ طاقت کے اعتبار سے کشش ثقل کی نسبت 100000 فی صد زیادہ طاقت ور ہیں۔

اس مشین کے ذریعے نہایت باریک ذرات کے اسراع کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ تاکہ اسراع شدہ ذرات بہت زیادہ توانائی کے ساتھ ذرات سے ٹکرا سکیں ۔ روشنی کی دو بیم تیز رفتاری کے ساتھ سرنگ سے گزاری جاتی ہیں۔ان ذرات کے ٹکرائو سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کو نوٹ کیا جاتا ہے ۔دنیا کے مانے ہوئے سائنسدان سرن میں کام کر رہے ہیں۔

سرن میں سائنسدان بگ بینگ کے نظریہ کو عملی طور پر ثابت کرنے کے لیے دن رات کوشاں ہیں ۔جس دن بگ بینگ کا راز افشا ء ہو گیا اس دن کائنات کے کم و بیش تمام راز انسان پر کھل جائیں گے ۔ قطع نظر ریاستوں کے درمیان جنگوں اور سیاسی اختلافات کے باوجود سائنسدان اس تجربہ گاہ میں مذہب اور ریاست سے بالاتر ہو کر کام کررہے ہیں ۔ ان سائنسدانوں کے کام پر آج تک کسی ریاستی عنصر کے اثرات کا شکار نہیں ہوا ۔ بلاشبہ یہ ایک مہنگا منصوبہ ہے ۔ اس منصوبہ کو جاری رکھنے کے لیے اب تک ٩ بیلین ڈالر خرچ کیا جا چکا ہے اور مزید خرچ کیا جا رہا ہے تاکہ کائنات کے پوشیدہ رازوں کو جاننے میں مدد مل سکے ۔ تاہم کئی ممالک نے مل کر اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور مسلسل کر رہے ہیں ۔

سرن ہی کے سائنسدانوں نے دنیا کو پہلی بار انٹر نیٹ ، ولڈ ویڈ ویب یا ویب سائٹس کا تحفہ دیا اور اسے ہر ایک کے لیے مفت فراہم کیا ۔سی ٹی سکین اور ایم آر آئی ، سپر الڑا سائونڈ بھی عنقریب مارکیٹ میں لایا جائے گا جس میں آج ؤکے الڑا سائونڈ سے کہیں گنا بہتر ہو گا۔سائنسدانوں نے ایسا عنصر دریافت کیا جو تمام عناصر کو طاقت فراہم کرتا ہے اسے طاقت کا سرچشمہ بھی کہا جا سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے گارڈ پارٹیکل کہا گیا ۔یہ سائنس کی دنیا میں ایک اہم ترین دریافت ہے ۔

ستمبر 2014 ء میں پاکستان سرن کا ایسوسیٹ ممبر بن چکا ہے ۔ ایشیائی ریاستوں میں پاکستان وہ پہلی ریاست ہے جو کہ نہ صرف سرن کی ممبر ہے بلکہ ایک بار سرن ایوارڈ بھی جیت چکی ہے ۔ پاکستان سرن کو ہیوی میکینکل کمپلیس ٣ کے ذریعے مختلف جوہری اور پیچیدہ مشینری بھی فراہم کرتا ہے ۔سرن کے کل چار چیمبر ہیں جن میں سے ایک حصہ پاکستان نے فراہم کیا۔اس چیمبر پر پاکستان کا جھنڈا چھپا ہونا ، وطن عزیز ا سائنس کی دنیا میں بلند نام کی ایک بہت بڑی علامت ہے ۔

پاکستانی سائنسداں دنیا کے ذہین ترین مانے جاتے ہیں ۔ فزکس کی دنیا میں ڈاکڑ عبدالسلام کا نام ایک اتھارٹی ہے۔مختلف ملاقاتوں اور کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی نے پاکستانی سائنسدانوں کی ذہانت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو مانتے ہوئے نہایت ہی قلیل عرصہ میں پاکستان کو گورنگ باڈی کا حصہ بھی بنا دیا ہے ۔ گویا پاکستان سرن کے انتظامی معاملات میں بھی شراکت داری حاصل کر چکا ہے ۔ پاکستان کی سرن میں ممبرشپ نے پاکستان میں سائنسی تحقیقات ، اوراس شعبہ میں ترقی کی راہیں کھول دی ہیں

ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے پروگرام کے لیے سرن ہر سال دو مرتبہ اسکالرشب کا اجرا ء کرتا ہے ۔ جس میں طالب علموں کو مفت رہائش ، سفر کے اخراجات ، صحت اور حادثاتی انشورنس ، ٹرینگ دی جاتی ہے ۔ پاکستان سے نہایت قلیل تعداد میں طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل کے سرن جاتے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے طالب علم نہ صرف سرن کے بارے میں جانتے نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے بھی اس بارے میں کالجوں ، یونیورسٹیوں میں کوئی آگاہی نہیں دی جاتی ۔ پاکستانی طالب علموں کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ سولہ سال کی ارفع کریم ایک ریکارڈ قائم کرتی ہے ۔ پاکستانی بچوں کی دماغی صلاحیت پورے ایشیاء کے بچوں کی دماغی صلاحیت سے زیادہ ہے ۔ گویا ہمارے یہاں صلاحیت اور قابلیت تو ہے لیکن عملی طور پر جہالت اور دنیا میں ہونے والی نت نئی ایجادات کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتے ۔

یہ بات قابل ِ غور ہے کہ پاکستان سرن کو مشینری اور دیگر جوہری مصنوعات تو فراہم کر رہا ہے لیکن پاکستانی طالب علموں کے لیے کوئی مخصوص کوٹا سر ن میں نہیں ۔ کوٹا تو درکنار پاکستانی طالب علموں کو عموما اسکالرشپ حاصل کرنے کے لیے حوصلہ افزائی تک نہیں کی جاتی کیونکہ اساتذہ ، کالجوں اور یونیوسٹیوں کی انتظامیہ از خود سرن کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتی ۔ اس لاعلمی کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بچوںکے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے صرف چند ایک شعبوں کو بہترین تصور کیا جاتا ہے ۔اور اکثریت ان شعبوں کے علاوہ کسی دوسرے شعبے کے بارے میںجاننے اور تحقیق کرنے سے گریزاں رہتی ہے۔

پاکستان اپنے طالب علموں کو سرن بھیج کر نہ صرف ان کی صلاحیتیوں میں اضافہ کر سکتا ہے بلکہ ان ایجادات سے فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ سرن میں ہو رہی ہیں ۔سرن میں سائنسدانوں کیفیلو شپ ان کے بہترین کریر کے لیے بھی ضروری ہے اور اس طرح وہ اپنے شعبے میں مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔

سر ن میں سائنسدانوں اور طالب علموں کو بھیجا جانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں پاکستان دوسری اقوام کی صف میں کھڑا ہو سکے ۔سرن میں ہونے والی تحقیقات سے اسی وقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب پاکستانی سرن میں دوسرے سائنسدانوں کے ساتھ مل کر کام کریں، فیلو شپ حاصل کریں اور طالب علموں کی صورت میں اسکالرشپ کے ذریعے سرن میں ہونے والی تحقیقات سے استفادہ حاصل کر کے وطن کی خدمت کریں۔

Maemuna Sadaf

Maemuna Sadaf

تحریر : میمونہ صدف