مرشد مرید

Shrine of Data Ali Hajveri

Shrine of Data Ali Hajveri

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
گلشنِ تصوف کا سب سے انوکھا نرالا مسحور کن پھول بلکہ کروڑوں ستاروں کے جھرمٹ میں ایک ہی روشن چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا سید علی ہجویری کا آستانہ صدیوں سے روحانیت کے متلا شیوں کا خالی دامن بھر رہا تھا یہاں جو بھی آیا اپنا خالی دامن من پسند خوشیوں سے بھر کر گیا ‘سید زادے کے ہجرے میں سلام نیاز کے بعد اپنی روحوں کو معطر کرنے کے بعد ہم بھی مسجد کے صحن آکر بیٹھ گئے تھے ‘رات کا وقت ہزاروں بر قی قمقموں نے چاروں طرف رنگ و نورکی با رش کی ہوئی تھی ہزاوں روشن قندیلوں کے درمیان لاکھوں دیوانے اپنی اپنی جھولیاں پھیلا ئے شہنشاہِ لا ہور کے آستانے پر حاضر تھے ایسا آستانہ نو ر ایسا مینا رہ نور جو صدیوں سے کر ہ ارض کی تا ریک فضائوں کو روشن کر رہا تھا جو بھی اِس آستا نے پر آیا ا تش عشق کی وہ چنگا ری اپنے با طن میں بھر کرلے گیا جس نے پھر طا لب کی تمام کثافتوں کو جلا کر راکھ کر دیا صدیوں سے یہ آستا نہ نو ر آتش عشق کی چنگا ری دیوانوں میں بانٹ رہا ہے اور یہ سلسلہ اِسی طرح روز محشر تک جا ری و ساری رہے گا۔

میری نظروں کے سامنے شہنشاہِ اجمیر خوا جہ خواجگان معین الدین کا حجرہ مبا رک اور سید علی ہجویری کا آستانہ پو ری آب و تاب سے چمک رہا تھا میں اُن لمحوں کو یاد کر رہا تھا جب برصغیر پا ک و ہند کی یہ عظیم زندہ جا وید ہستیاں اِ س جگہ پر ما دی جسم کے ساتھ حیات تھیں وقت گزرنے کا احساس ختم ہو چکا تھا میں دنیا ما فیا سے بے خبر ہر لمحے کو خوب انجوائے کر رہا تھا اِسی دوران میں نے محسوس کیا ایک دراز قد پچاس سالہ شخص سر پر کُلا گلے میں مالائیں ہا تھوں میں بہت ساری انگو ٹھیاں خو شبو میں لُتھڑا ہوا شخص میرے پاس آکر بیٹھ گیا وہ غو ر سے میری طرف دیکھ رہا تھا پہلے تو میں اُسے نظر انداز کر تا رہا لیکن وہ شاید مجھ سے مخا طب ہو نا چاہتا تھا میں نے شفیق مسکراتی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا اورمصافحے کے لیے ہا تھ بڑھا دیا میری حو صلہ افزائی پر وہ پھو ٹ پھو ٹ کر رونے بلکہ دھا ڑیں ما رنے لگا اور مُجھ سے لپٹ گیا وہ خوب دل کھو ل کر رو رہا تھا میں اُس کے اِس رو ئیے کے لیے با لکل بھی تیا ر نہیں تھا لیکن میں اپنی فطری نر می کی وجہ سے اُس کو تھپک رہا تھا کہ اللہ بہتر کر ے گا اِس آستا نے سے کو ئی بھی خا لی ہا تھ واپس نہیں جا تا آپ کی جو بھی مانگ ہے وہ آج ضرور پو ری ہو گی لیکن وہ مسلسل ہچکیاں لے کر رو رہا تھا اُس کے جسم پر لرزا طا ری تھا پھر میں نے اُسے رونے دیا جب اُس نے خو ب جی بھر کر رو لیا تو میری طرف التجا ئی نظروں سے دیکھتے ہو ئے کہا آپ میرے لیے دعا کریں شہنشاہِ لا ہور مجھے خالی دامن واپس نہ لوٹا ئیں آج میرا دامن بھر دیں میں نے پیا ر سے اُس کی سیلابی آنکھوں میں جھا نکا اور نرم لہجے میں پو چھا کیا دعا کر نی ہے تو وہ ہا تھ جو ڑ کر روتے ہو ئے بو لا میرا مرشد مُجھ سے نا راض ہو گیا ہے مجھے درمیان راستے میں اکیلا چھو ڑ دیا ہے آپ دعا کریں میرا مرشد مجھ سے راضی ہو جا ئے میں بار بار معافی مانگ چکا ہوں پا ئوں پکڑ چکا ہوں لیکن مر شد راضی نہیں ہو رہا اب مجھے اپنے آستا نے پر آنے سے بھی روک دیا ہے۔

میں پچھلے با رہ سال سے اُن کے ساتھ منسلک ہوں انہوں نے میری زندگی بدل دی لیکن ایک سال پہلے میری حما قت سے وہ مُجھ سے نا راض ہو گئے میں نے تو بہ بھی کر لی اور معافی بھی مانگی لیکن وہ راضی نہیں ہو رہے مُجھے اُن کو روز اُن کے آستانے کو دیکھنے کی عادت پڑ چکی ہے میں اُن کے دیدار کے بغیر نہیں رہ سکتا میں بے شما ر نیک بزرگوں اور آستا نوں پر جا چکا ہوں آج اپنی مراد لیے لا ہور آیا ہوں تو یہاں آگیا آپکی کتا بیں اور کالم بزم درویش میں شوق سے پڑھتا ہوں یہاں آپ کو دیکھا تو امید بندھی کہ آپ میرے لیے دعا کریں میں نے اُسے بہت حو صلہ اور دعائیں دیں کہ تمہا رے مرشد جلدی تم سے راضی ہو جائیں گے وہ امید بھری نظروں سے مجھے دیکھتا ہوا چلا گیا تو مجھے تاریخ تصوف کا انو کھا لا ڈلہ نرا لہ بے با ک صوفی شاعر یا د آگیا جس نے مرشد کی نا راضگی دور کر نے کے لیے اپنی ذات فنا کر دی اور تصوف کا ایسا سنہری باب رقم کیا جسے لو گ روز قیا مت تک یا د رکھیں گے اِس عظیم صوفی شاعر کا آستانہ نو ر لا ہو ر کے قریب شہر قصور میں ہے ویسے تو قصور شہر کے کئی حوا ریوں سے تا ریخی حیثیت رکھتا ہے لیکن برصغیر پا ک و ہند میں اِس علا قے کی بنیا دی شہرت کا سبب حضرت سید عبداللہ ( بلھے شاہ ) جیسے عظیم صوفی بزرگ کا مزار مبا رک ہے جس سے دن رات معرفت کی کر نیں پھوٹتی ہیں۔

دنیا کے چپے چپے سے متلا شیان حق کے قا فلے اِس روشنی کی تلا ش میں شہر قصور آتے ہیں تا کہ اپنے زنگ آلودہ دلوں کو معرفت کے نور سے روشن کر سکیں حضرت بلھے شاہ 1675ء میں بقام اچ گیلا نیاں پیدا ہو ئے آپ کے والد محترم کا نا م حضرت سید سخی شاہ محمد ایک معروف عالم دین تھے مگر یہاں اُن کے قدر دان نہ تھے وقت بدلا اور حضرت سید سخی شاہ محمد کے کے اقتصادی حالات بہت خراب ہو گئے تو معاش کی تلاش میں یہ خاندان قصور کے قریب گائوں ملک وال میںآکر آبا دہو نا ہو گیا ملک وال میں تھو ڑے عرصے میں ہی سید سخی شاہ محمد کے علم و فضل کے چرچے چاروں طرف پھیلنے لگے تو قریب کے گا ئوں کا چوہدری پانڈو شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو اجس کے نام پر گائوں ”پانڈو کے ” آبا دتھا اُس نے آکر شاہ صاحب کو درخوا ست دی کہ آپ میر ے گا ئوں تشریف لے چلیں چوہدری پانڈوکی محبت سے مجبور ہو کر بلھے شاہ کے والد شاہ صاحب پانڈوکے میں آکر آباد ہو گئے مدرسہ بنا یا اور اسلا م کی تبلیغ میں مشغو ل ہو گئے۔

اِسی گائوں میں بلھے شاہ کی با قاعدہ تعلیم کا آغا ز ہوا آپ کے والد صاحب نے آپ کی با قاعدہ تعلیم و تر بیت کا آغاز کر دیا پا نڈو کے میں ہی دوران تعلیم ایک دن بلھے شاہ گھر سے غائب ہو گئے آپ کے والد صاحب گھر تشریف لا ئے تو بیوی سے حضرت بلھے شاہ کے بارے میں دریا فت کیا بیوی نے لا علمی کا اظہا ر کیا تو والد صاحب نے بلھے شاہ کو بہت آوازیں دیں جب کو ئی جوا ب نہ آیا تو بیٹے کی تلاش میں نکل کھڑے ہو ئے لوگوں نے والد صاحب کو بتا یا کہ ننھا عبداللہ دوستوں کے ساتھ کھیتوں کی طرف جا رہا تھا اب والد صاحب پریشانی میں بیٹے کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس با غ میں پہنچے جہاں پر بہت سارے بچے کھیل رہے تھے لیکن وہاں بڑے شاہ صاحب نے عجب منظر دیکھا ننھاعبداللہ دوستوں سے الگ تھلگ بیٹھا تسبیح ہا تھ میں لیے آنکھیں بند کر کے والہا نہ اندا زمیں نشے میں ڈوبا پنجابی زبان کا یہ شہر پڑھ رہا ہے۔

لوکاں دا چپ مالیاں تے با بے دا چپ مال
ساری عمر اں ما لا پھیری اِک نہ کتھا وال

یعنی لو گوں کا مال کھا تے رہے اور جو کچھ اللہ نے دیا وہ بھی خو د کھا لیا اللہ کے راستے میں کچھ بھی خر چ نہ کیا ایسی حالت میں ساری عمر تسبیح پھیرتے رہے اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوا اِسطرح اللہ کی رضا سے محروم رہے ۔ ایک تو شاعری میں صوفیانہ مٹھا س اوپر سے بلھے شا ہ کا ڈوب کر پڑھنا والد صاحب پر وجد انگیز کیفیت طا ری ہو گئی آپ بیٹے کو ڈانٹنے کی بجا ئے وہیں کھڑے ہو کر شعر کالطف اٹھا نے لگے جھو منے لگے بلھے شاہ شعر کی تکرار کرتے رہے اور باپ خو شی اور نشے میں جھو متا رہا باپ بیٹا دونوںسرورو انگیز نشے میں دھت تھے بلھے شاہ شعر پڑھنا بند کردیا لیکن ابھی بھی وہ نشے میں تھاآخر باپ نے بیٹے کے کندھے پر ہا تھ رکھا اور بیٹے نے آنکھیں کھو ل دیں با پ کو دیکھ کر احتراما کھڑا ہو گیا با پ نے بیٹے کو چوما اور گلے سے لگا کر گھر آگیا اور بیوی سے کہا آئیندہ عبداللہ کے ساتھ محتاط رہنا یہ عام بچہ نہیں ہے یہ پیدا ئشی ولی ہے اب با پ دن رات بلھے شاپ کا شعر پڑھتا عبادت ریا ضت میں اضا فہ ہوا اورمعرفت کے اسرار رمو ز اشکا رہو نے لگے۔

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org