امریکا کی انسانی حقوق کونسل سے علیحدگی

Haley and Mike Pompeo

Haley and Mike Pompeo

تحریر : محمد صدیق پرہار

سوئزرلینڈ کے شہر جنیوا میں انچاس صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کرتے ہوئے اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے حقوق انسانی زیدرعدالحسین نے کشمیر کے آر پار سنگین نوعیت کی حقوق انسانی کی پامالیوں اور مرتکب سیکیورٹی اہلکاروں کو استثنیٰ دیے جانے کی بین الاقوامی سطح پر تحقیقات کی سفارش کی ہے۔اپنی پہلی رپورٹ جاری کرتے ہوئے حقوق البشر کونسل کے سربراہ زیدرعدالحسین نے خبردار کیا ہے سات دہائی پرانے تنازعہ کشمیر نے اب تک ہزارو ں لاکھوں زندگیوں کو تباہ وبربادکردیا ہے۔اس دوران اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیوگوترس کے ترجمان نے کہاہے کہ رپورٹ میں کنٹرول لائن کے آرپارجن بشری حقوق پامالیوںکی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی اعلیٰ سطحی تحقیقات کی سفارش کی گئی ہے۔سا کافیصلہ کونسل کے ممبران کریں گے۔سیکرٹری جنرل کے نائب ترجمان فرحان حق کے یہ تاثرات منقسم کشمیر سے متعلق رپورٹ سامنے آنے کے بعدآئے ہیں سیکرٹری جنرل کے نائب ترجمان فرحان حق نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ یہ سوال اقوام متحدہ کے بشری حقوق کونسل کے ممبران کاہے۔ہائی کمشنرزیدنے یہ تجویزکونسل کودی ہے۔ہم دیکھیں گے اوراس بات کا احاطہ کریں گے کہ ردعمل کیاہوگا۔جب ان سے پوچھاگیا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کشمیرکی صورت حال کی تحقیقات کی حمایت کررہے ہیںتوفرحان حق نے کہا کہ اقوام متحدہ سربراہ کادیرینہ موقف ہے کہ فریقین کوکشمیرکی صورت حال کاحل ازخودبرآمدکرناچاہیے۔انہوںنے کہاکہ بشری حقوق کونسل نے جورپورٹ تیار کی ہے اس میں یہ دیکھناہوگا کہ انہوںنے کیانتیجہ اخذکیاہے۔جب کہ تماممبران ممالک کو حداختیارکا سوال ہے یہ ممبران ممالک پرمنحصرہے کہ وہ اقوام متحدہ کو حاصل مینڈیٹ کومتعین کریں۔ انہوں نے مزیدبتایا کہ کونسل کے ہائی کمشنراوربشری حقوق کے دفترنے جوکام کیاوہ یہ ہے کہ انہوںنے دستیاب بہترمعلومات کی بنیادوںپررپورٹ تیارکی ۔حتیٰ کہ انہیں کشمیرکے دونوںحصوںتک جس رسائی کی ضرورت ہے اس میں کمی ہے۔ ان کامزیدکہناتھا کہ اس مرحلے پران کے ہاتھوںمیں رپورٹ ہے اوراقوام متحدہ کے بشری حقوق کونسل کے ممبرممالک اس بات کاتعین کریں کہ اس سلسلے میںکوئی دیگراقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔اس دوران بھارت نے ان الزامات کومستردکرتے ہوئے لغواورغلط قراردیا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوترس نے خبردارکیا ہے کہ فلسطین کامحصورعلاقہ غزہ جنگ کے دہانے پرہے ۔صورت حال انتہائی تشویش ناک اور خوف ناک ہے۔اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے زخمی فلسطینی لڑکاچل بسا۔فلسطینیوںکے یہودی کالونیوںپرکاغزی آتشی جہازوں سے مزیدحملوں سے فصلیں تباہ ہوگئیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گوترس نے سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے غزہ میں حق واپسی کے لیے پرامن احتجاج کرنے والے فلسطینی مظاہرین کے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قتل عام پرگہرے دکھ اورصدمے کااظہارکیا۔ان کاکہناتھا کہ غزہ کی پٹی میں جوکچھ ہورہاہے وہ انتہائی تشویش ناک اور خوف ناک ہے۔سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے کہا کہ سب کومتنبہ کرتاہوں کہ غزہ جنگ کے دہانے پرپہنچ چکا ہے۔سال دوہزارچودہ کی جنگ کے بعد غزہ کی پٹی میں حالات ایک بارپھرانتہائی خطرناک نہج پرپہنچ چکے ہیں۔اسرائیلی فوج کے ہاتھوں بے گناہ افرادکی ہلاکتوں اورہزاروں کے زخمی ہونے پرگہرادکھ اورصدمہ ہے ۔جنگی صورت حال کی وجہ سے عام شہریوںکی زندگی اجیرن ہوکررہ گئی ہے۔ادھرغزہ کی وزرات صحت کے ترجمان نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے مشرقی البریج میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے زخمی ہونے والاتیرہ سالہ لڑکادم توڑ گیا ہے۔اسرائیلی اخبارات کے مطابق حالیہ چندایام کے دوران فلسطینی شہریوںکی جانب سے کاغذی آتش گیرجہازوں کے حملے سے یہودی کالونیوںمیں زیرکاشت فصلیں اورشہدکی صنعت تباہ ہوگئی ہے۔قابض صہیونی فوج نے جنوبی شہرالخلیل کی کالونی تل ارمیدہ میںبسنے والے فلسطینیوںکونام نہادتلاشی کی آڑمیںانہیں گھروںمیں داخل ہونے سے قبل کپڑے اتارنے کے احکامات دیے ہیں۔

بچوںکووالدین سے الگ کرنے کے معاملے پرامریکاکوشدیدتنقیدکاسامنا ہے۔اقوام متحد ہ نے امریکاسے ظلم کی مشق فوری ختم کرنے کامطالبہ کیا ہے ۔والدین کے حوالے سے فیصلے کی بناپربچوںکوسزادینے کے عمل پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سربراہ رعد الحسین نے کہا ہے کہ امریکامہاجربچوںکووالدین سے جداکرنے کے عمل کوفی الفورروکے۔حالیہ ایام میں دوہزارکے قریب بچوںکوان کے خاندانوںسے جبری طور پر جدا کر دیا گیا ۔ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کمیشن کی چھ جولائی تک جاری رہنے والی ٣٨ویںنشست کاآغازسوئس شہرجنیوامیںہواہے۔اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ہائی کمشنرزیدرعدا لحسین نے نشست کے افتتاحی خطاب میںبتایا ہے کہ امریکاکاوالدین کے حوالے سے فیصلے کی بچوںکوسزادینے کاعمل درآمدباعث تشویش ہے ۔ ان کاکہناتھا کہ مجھے افسوس ہے کہ مہاجرین کی میزبانی کرنے والے ممالک ان سے ایساسلوک کرتے ہیں۔جس سے ان کی تکالیف میں اضافہ ہوتاہے۔زیدرعد الحسین نے جن کی مدت ملازمت رواں سال کے ماہ اگست میں ختم ہونے والی ہے۔

دراصل امریکاکی جانب اشارہ کیا۔جہاں حکام نے میکسیکوکی سرحد پر غیر قانونی تارکین وطن کے قریب دوہزاربچوںکوان کے والدین سے الگ کردیاتھا۔اقوام متحدہ کی بشری حقوق کونسل کے سربراہ زیدرعد الحسین نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ خیال بھی بچوںپرایساظلم کرکے والدین کوروک دیاجائے گا۔ ضمیرکے خلاف ہے۔زیدرعد الحسین نے امریکاسے مطالبہ کیاہے کہ اس طرح کی مشق کوفی الفورختم کیاجائے۔ادھرامریکاکے صدرٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکاپناہ گزین کیمپ نہیںبنے گا اورنہ ہی پناہ گزینوںکوکسی قسم کی سہولت فراہم کرے گا۔جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کاکہناہے کہ ہجرت ناگزیرضرورت ہے اس کوبہتراندازمیں ریگولیٹ کرناہوگا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے تمام تر مخالفت کے باوجودامیگریشن پالیسی مزیدسخت کرنے کے لیے تمام ریاستوں سے مرحلہ وارامیگریشن ججوںکوواشنگٹن طلب کرلیا ہے۔جہاں ہوم لینڈ سیکیورٹی کے اعلیٰ عہدیداران انہیں نئی امیگریشن پالیسی کے بارے میں بریفنگ اورسخت گائیڈلائنزدیں گے۔اس اقدام سے امریکامیںمقیم پاکستانیوں سمیت دیگرممالک کے افرادمیں خوف وہراس پایاجاتاہے۔

امریکی اٹارنی جنرل جیف سیشنزکے مطابق غیرقانونی تارکین وطن کے کیسوںکوکریمنل کیسزکے ماہرججوں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ذرائع کے مطابق ججوںکوٹارگٹ دیا جارہا ہے کہ وہ زیرالتواکیسوںپرجلدازجلدفیصلے کریں اورکسی ایسے شخص یاخاندان کورعایت نہ دی جائے جوانگلش نہ بول سکتاہواورغیرقانونی طورپرامریکامیں داخل ہواہو۔امریکامیں اس کی موجودگی کے دوران قانون کی کسی معمولی خلاف ورزی پربھی اس کاکیس ختم کرکے ملک بدرکیاجاسکتاہے۔امریکی مبصرین کے مطابق ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم کے دوران سب سے پہلے امریکا پالیسی سے متعلق پہلے ہی بتادیاتھا۔سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ جن لوگوںنے گزشتہ بیس سالوں میں مختلف کیسوں کے دوران امریکی شہریت حاصل کی ان کے کیسزکابھی ازسرنوجائزہ لینے کے لیے سینئر ججوں پرمشتمل بااختیارکمیٹی بنانے کی تجویزبھی زیرغورہے۔کمیٹی ان کیسوں کی چھان بین کرکے شک کی بناپرامریکی شہریت بھی ختم کردے گی۔امریکی خاتون اول میلانیانے صدرٹرمپ کی ظالمانہ امیگریشن پالیسی پرتنقیدکرتے ہوئے کہا کہ مجھے بچوںکووالدین سے جداکرنے سے نفرت ہے۔امریکاایساملک ہوناچاہیے جہاں تمام قوانین کی پاسداری اوردل کی حکمرانی ہو۔مجھے امیدہے دونوںجماعتیں مل کرکامیاب امیگریشن اصلاحات کرنے میں کامیاب ہوں گی۔ دوسابق خواتین اول ہیلری کلنٹن اورلارابش نے ٹرمپ کوسخت تنقیدکانشانہ بناتے ہوئے کہا کہ امریکی صدراورہٹلرمیںکوئی فرق نظرنہیں آرہا۔وہ نازی دورکی یادتازہ کر رہے ہیں۔خاندانوںکوجداکرناظالمانہ اقدام ہے۔کوئی ذی شورشخص ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کی حمایت نہیںکرسکتا۔ہوم لینڈ سیکیورٹی اہلکاروںکی جانب سے غیرقانونی تارکین وطن کی گودسے روتے بچوںکوزبردستی لینے کی ویڈیومنظرعام پرآنے کے بعدسیاستدانوں، چرچ گروپ اوربچوںکے تحفظ پرمشتمل غیرسرکاری تنظیموںنے شدیدبرہمی کااظہارکیاہے۔

امریکاکی اقوام متحدہ میں سفیرنکی ہیلی نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق منافقانہ ہے اورانسانی حقوق کامذاق اڑارہی ہے۔امریکانے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق پراسرائیل مخالف ہونے کاالزام عائدکرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس کونسل کاممبررہنے کے فیصلے نظرثانی کررہا ہے۔اقوام متحدہ میں امریکی سفیرنکی ہیلی نے کونسل کی ممبرشپ چھوڑنے کااعلان وزیرخارجہ مائیک پومپیوکے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ نکی ہیلی نے کونسل کوسیاسی تعصب کی گندگی قراردیتے ہوئے کہا کہ میں اس بات کوبالکل واضح کرناچاہتی ہوں کہ اس قدم کامقصدانسانی حقوق کی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنانہیں ہے ۔ امریکاکی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیاگیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ کی غیرقانونی طورپرامریکاآنے والے تارکین وطن کو ان کے بچوں سے علیحدہ کرنے کی پالیسی کوشدیدتنقیدکاسامناہے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ایک بیان میں امریکی فیصلے کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکاکونسل کا ممبر رہے ۔ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے کمشنرزیدرعدالحسین نے امریکی فیصلے کومایوس کن لیکن حیران کن قرارنہیں دیاہے۔

سچ تویہ بھی ہے کہ امریکاانسانی حقوق کے کسی کمیشن اورکسی تنظیم یاگروہ کاممبربننے کااہل بھی نہیں ہے۔جوملک خودانسانی حقوق کی خلاف ورزیوںمیں ملوث ہو وہ انسانی حقوق کے محافظوں میں کیسے شامل ہوسکتاہے۔نائن الیون کے بعدمسلمانوں کے ساتھ جوسلوک روارکھاجارہا ہے اوراب ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی پر عمل درآمدسے انسانی حقوق کی کس طرح پاسداری ہورہی ہے اسے پوری دنیااچھی طرح جانتی ہے۔یہ کھلاتضادنہیں تواورکیا ہے کہ ایک طرف امریکابرائی کوختم کرنے اوردنیاکوتحفظ دینے کے نام پرمسلمان ممالک پرچڑھ دوڑتاہے دوسری طرف ٹرمپ کہتاہے کہ امریکہ پناہ گزین کیمپ نہیں بنے گانہ ہی پناہ گزینوںکوکوئی سہولت دے گا۔پاکستان میں ڈرون حملوںمیں ہزاروںبے گناہ پاکستانیوںکی شہادت بھی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے جس میں ہزاروں بے گناہ انسانوںسے ان کے زندہ رہنے کاحق چھین لیاگیا۔اگرچہ امریکانے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق پراسرائیل مخالف ہونے کاالزام لگایا ہے۔ اسے غصہ اس بات پربھی ہوسکتاہے کہ بشری کونسل نے کشمیرمیں بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوںکی رپورٹ کیوںجاری کی ہے۔والدین سے ان کے بچوںکوچھین لینابھی توانسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔امریکابشری کونسل سے اس لیے بھی الگ ہواہے کہ اس کونسل نے اسرائیل اوربھارت کی طرف سے کی گئی انسانی حقوق کی پامالیوں کودنیاکے سامنے بے نقاب کیا ہے اوردونوںملک امریکاکے چہیتے ہیں۔گوانتاموبے جیل میں قیدیوں سے نارواسلوک انسانی حقوق کی پاسداری کوکیانام دیاجائے پوری دنیااچھی طرح جانتی ہے۔اب بھی امریکاانسانی حقوق کونسل کاممبربنارہے تویہ انسانی حقوق کے ساتھ سنگین مذاق کے مترادف ہے۔

Muhammad Siddique prihar

Muhammad Siddique prihar

تحریر : محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com