عزت دار کو ووٹ دو

Vote

Vote

تحریر : صادق مصطفوی

الیکشن سے پہلے ہر جماعت اپنا ایک نعرہ سامنے لے کر آئی ہے۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر جماعت باقاعدہ اپنا منشور پیش کرتیں۔ اور اس منشور کو عوام میں تقسیم کیا جاتا، میڈیا پر اس منشور کی وضاحت کی جاتی اور عوام کی طرف سے کئے جانے والے سوالوں کے مناسب اندازمیں جواب دیے جاتے۔لیکن ایسا کچھ نہیں ،منشور صرف تقروں کی حد تک محدود ہیں اور الیکشن میں ووٹ لینے کیلئے دلیل کے طور پر مخالف جماعت کی خامیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اور اس دوڑ میں عام امیدوار تو کیا قومی سطح کے امیدوار جوش خطابت میں نازیبا جملوں کے استعمال کرتے نظر آ رہے ہیں۔

عمران خان سابق وزیر اعظم نواز شریف کے استقبال کیلئے لاہور ایئرپورٹ پر جانے والے لیگی کارکنوں کوگدھے سے تشبیہ دیتے ہوئے اس بات کو کیوں بھول گئے کہ سیاسی کارکن پہلے ایک پاکستانی ہیں۔ پرویز خٹک کی طرف سے بھی پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے متعلق ایسے ہی ناقابل بیان الفاظ استعمال کرتے ہوئے ان کو یاد نہیں رہا کہ وہ بھی اسی جماعت سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے سردار ایاز صادق نے جوش خطابت میں تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے پنجاب کے لوگوں کو غیرت سے منسوب کرتے ہوئے کچھ زیادہ ہی کہہ گئے۔

جمہوری حکومتوں میں ووٹ کی بہت اہمیت ہوتی ہے ۔ ووٹر کو حکومتوں کی طاقت سمجھا جاتا ہے ۔ امریکہ جیسے ممالک میں الیکشن سے پہلے صدارتی امیدوار اپنا منشور میڈیا اور الیکشن کمپین کے ذریعے عوام کے سامنے رکھتے ہیں ۔ عوام اس منشور کو دیکھتے اور سمجھتے ہوئے اپنا ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ مگر پاکستان میں عوام کا ووٹ دینے کیلئے طریقہ مختلف ہے۔عوام کی نظروں میں امیدوار کے اہل یا نااہل ہونے کا پیمانہ عجیب ہی ہوتا ہے ۔ جن میں بریانی کی پلیٹ ، گلی کی نالی کو پختہ کروانا، اپنے بچوں کیلئے نوکری کا وعدہ لینا، ا،میدوار کا برادری سے تعلق ہونا، گاؤں یا حلقہ کے چوہدری کا حکم ہونا، آپ کی پسندیدہ پارٹی کا نشان ہونا وغیرہ ۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ عوام اپنے ووٹ کو بیچتی ہے ۔ اس طرح الیکشن کے اس کرپٹ بزنس میں عوام بھی برابر کی شریک ہوتی ہے ۔

ووٹ دینے سے پہلے عوام کے نزدیک امیدوار کی قابلیت ، کوئی اہمیت نہیں رکھتی لیکن الیکشن کے بعد ہم نیک، اہل، قابل اور ایماندار حکومت کی خواہش کرتے ہیں۔ جن سیاسی لوگوں کو ہم نے اپنا ووٹ بیچا ہوتا ہے ، الیکشن کے بعد ان کو کو ہی ہم 5 سال گالیاں نکالتے ہیں ان کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اور ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک پر ان کرپٹ مافیا کو مسلط کرنے میں ہمارا ہی کردار شامل ہے۔

عوام کوجب موقع ملتا ہے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا تو اس وقت اپنے ووٹ کو بیچنے کی بجائے ذرا سوچیں کہ کیا ہم اپنے ووٹ کا صیح استعمال کر رہے ہیں۔ جس امیدوار کو ووٹ دے رہے ہیں کیا وہ ملک پاکستان کی ترقی و سلامتی کیلئے مناسب ہے۔ کیا وہ ملک پاکستان کو دنیا میں ایک باعزت مقام دلا سکے گا۔ کیا اس کے منتخب ہونے کے بعد ہماری ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں کی عزتیں محفوظ ہو سکیں گی۔

مسلم ممالک میں ایٹمی پاور رکھنے والا ملک امت مسلمہ کی قیادت کے قابل ہو سکے گا۔ اگر ووٹ دینے سے پہلے اس جیسے کئی سوالوں پر غور کیے بغیر اس کرپٹ بزنس کا حصہ بننا ہے تو پھر ہمیں ڈیم بنانے کیلئے چندہ ہی مانگنا پڑہے گا ،ہمیں پھر زینب جیسی معصوم بچیوں کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز واقعات کیلئے تیار رہنا ہو گا۔ اگر کسی عزت دار کو ووٹ دیں گے تو ہی ہمارے گھروں کی اور اس ملک کی عزت محفوظ ہو گی۔

Muhammad Sadiq

Muhammad Sadiq

تحریر : صادق مصطفوی