بہادر باپ کی نڈر بیٹی کو قوم کا سلام

Maryam Nawaz

Maryam Nawaz

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید

فاطمہ بنتِ عبد اللہ جس نے نوعمری میں ہی جنگ بلقان میں بہادری کی وہ مثال قائم کی تھی جس پر شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنی نظم فاطمہ بنتِ عبداللہ میں اس کے جوہرِ نایاب کی جی کھول کر تعریف کی تھی۔ فاطمہ بنتِ عبداللہ کی روح بھی اس عظیم بیٹی مریم نوازپر فخر کر رہی ہوگی ۔سیانے کہتے ہیں پوت کے پیر تو پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں۔مریم نواز جب پہلی مرتبہ میڈیا پر بولیں تھیں تو ہم نے اپنے کالم ’’ویل( ڈن مریم نواز)کوئی جل گیا اورکسی نے دعا دی ‘‘کے عنوان میں اُسی وقت کہہ دیا تھاکہ یہ مستقبل کی بڑی سیاست دان ثابت ہوں گی جو بے نظیر کی جگہ لے گی اور آج وقت ہماری اس پیشنگوئی کا غماز ہے۔مریم نواز ایک ایسی بیٹی ہے جس نے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں باپ کی حمایت کر کے قید و بند کوکا طوق بھی اپنے گلے میں بخوشی ڈال لیا ہے۔

موجودہ دورِ انتخاب میں لاڈلے اور اُس کی ٹیم کے لوگوں کو ہر معاملے میں جی کھول کر استثنی ٰ ہر جانب سے دیا جا رہا ہے اور اس کی کامیاب کے دروازے بڑھ بڑھ کر کھولنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب نواز شریف اور اُن کے ساتھیوں کے ساتھ اداروں اور عبوری حکومت کا تعصب کھل کر سامنے آرہا ہے۔نواز اور شہباز شریف اور اُن کے ساتھیوں کو آئے دن عدالتوں کی پیشیاں بھگتنا پڑ رہی ہیں تو دوسری جانب لاڈلے عمران نیازی کو عدالت میں پیشی سے بھی استثنیٰ دیدیا جاتا ہے۔اسی طرح الیکشن کمیشن اور نیب سے بھی ذاتی طور پر لاڈلے عمران نیازی کو پیشی سے استثنیٰ دیدیا گیا ہے۔اسی طرح نواز شریف کے ساتھی حنیف عباسی کا ایفی ڈریرین کیس جوسالوں سے التوا کا شکار چلا آرہا تھا ۔اس میں بھی تیزی پیدا کر دی گئی ہے اور الیکشن سے پہلے روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع کر دی گئی ہے۔جس سے لگتا یوں ہے کہ نواز شریف کے خلاف انتخابی دھاندھلی کا آغاز زبردست طریقے پرکر دیا گیا ہے اس حوالے سے پنجاب کی صوبائی حکومت پاک پوتر پروفیسر کے ساتھ مل کرلاڈلے کو جتانے کے کھیل کا بھر پور حصہ دکھائی دیتی ہے۔جبکہ حنیف عباسی کو روزانہ سماعت کے احکامات ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت دیدئے گئے ہیں۔اس کے خلاف حنیف عباسی سپریم کورٹ کا در وازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو وہاں سے بھی انہیں منفی جواب ملتا ہے۔ایسے گیم اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ اقتدار لاڈلے کے لئے پاکستان کے تمام ادروں نے لکھ دیا ہے۔مگر ان سے بھی قوی قوت ایک اور بھی ہے جو ان کے فیصلوں کو کالعدم کرنے کی پوری صلاحیت کی مالک ہے۔ و ہ ہی ان کھلاڑیوں کے تکبر کا خاتمہ کر دے گی۔

مریم نواز کی سزا پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے نامور قانون دان اور سابق گورنر سندھ جناب کمال الدین اظفر نے واضح اور دو ٹوک انداز میں کہاہے کہ مریم نواز کی سزا سابقہ فیصلوں سے متصادم ہے!کیونکہ پاناما لیکس میں مریم نواز کو مجرم ٹہرایا ہی نہیں گیا تھا۔ مریم نواز کو دی جانے والی سزا کو سابقہ فیصلوں کی روشنی میں دیکھا جائے تومریم نواز کی سزا ان فیصلوں سے متصادم نظر آتی ہے۔ پاناما کیس میں مریم نواز کو کس حیثیت میں مجرم ٹہرایا گیا؟عدالتی فیصلوں میں بتایا گیا ہے کہ اگر ملزم کسی حکومتی عہدے کا حامل ہو تب ہی وہ ان مخصوص دفعات اور شقوں میں مجرم قرار دیا جا سکتا ہے۔سرکاری عہدے کے علاوہ بھی تین دوسرے نکات جو گذشہ فیصلوں میں بیان کئے گئے تھے ان کا اطلاق بھی مریم نواز شریف پر نہیں ہوتا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 20ستمبر 2011کو غنی الرحمان بنام نیب کے فیصلے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنی تحریر میں ان نکات پر روشنی ڈالی ہے….اسی طرح ایک دوسرے فیصلے میں محمد ہاشم بنام ریاست پاکستان میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے 30اپریل 2010کے فیصلے میں بھی وضاحت کے ساتھ بتایا تھا ملزم چونکہ پبلک آفس ہولڈرتھا اس کے اثاثے اس کی آمدن سے زائد تھے جس کو ثبوتوں کے بعد ملزم قرار دیا گیا۔چونکہ مریم نواز شریف کے پاس کبھی بھی کوئی حکومتی عہدہ نہیں رہا اس لئے ان عدالتی فیصلوں کی روشنی میں سزا سنایا جانافیصلوں میں بیان کئے گئے نکات سے متضاد ہے۔ مگر اس واضح رائے کے باوجود مریم نواز شریف کو ان کے والد کے ساتھ لاڈلے کی خوشی کی خاطر اڈیالہ جیل میں ڈال کر اپنے کردار پر نیب نے سوالیہ نشان لگوا لیا ہے۔تاریخ کے فراعون کبھی سرُخ رو نہیں ہوتے ہیں۔جو اپنے چہروں کی کالک کو ہمیشہ چھپاتے پھرتے ہیں۔

بہادر باپ کی بہادر بیٹی مریم نواز آج اگر جیل کی سلاخون کے پیچھے ڈالدی گئی ہے۔ تو اس لئے نہیں کہ وہ قصور وار ہے یا مجرم تھی!ان کو محض اس لئے جیل کی سلاخون کے پیچھے ڈا لا گیا ہے کہ وہ اپنے والد کے شانہ بشانہ ایک آ ہنی دیور بن کر کھڑی رہی ہیں۔ یہ تو آنے والا وقت ہی فیصلہ دے گا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے۔آج کی مریم نواز کل کی بے نظیر کی طرح مردوں کا سا عزم رکھتی ہے۔ایسے آ ہنی عزم والی خواتین ٹوٹ تو سکتی ہیں مگر بک نہیں سکتی۔مریم نواز نے اپنے والد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنا عیش و آرم تک تج دیا ہے۔اور جیل کے بے آرام فرش اور قیدِ تنہائی کے ساتھ سلاخوں کے پیچھے باپ کی محبت کا حق نبھانے کیلئے بے آرامی اور قید و بند کو قبول کر لیا ہے۔تاریخ میں ایسی بہادر بیٹیاں کم کم ہی نظر آتی ہیں۔ ایک خاتوں ہونے کے باوجود جس طرح و ہ ظلم کے سامنے سینہ پِپر ہوئی ہے۔ اس نے ان کے وقار میں چار چاند لگا دیئے ہیں۔

باپ بیٹی کے آہنی عزم نے انگلی ہلانے ولوں کے بھی دل دہلا دیئے ہیں۔ان کے محب لوگوں کی تعداد کو اچا نک بڑھا دیا ہے۔باپ بیٹی کی گرفتاری پربغلیں بجانے والے آج مایوسیوں کا شکار دکھائی دیتے ہیں ۔پاکستان اور خاص طور پر پنجاب کے عوام اداروں کا تعصب بغور دیکھ رہے ہیں۔دوسری جانب پی ٹی آئی کے جلسے جس طرح اب فلاپ ہو رہے ہیں ان کو بھی سارا پاکستان ہی حیرت زدہ ہو کر دیکھ رہا ہے۔لوگ کہتے ہیں بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔مگر نام نہاد سیول سوسائٹی کے پروردوں کے لئے اس بات کی کوئی اہمیت ہے نہیں۔ہم سمجھتے ہیں جس قدر پیشیاں بیٹی مریم نواز بھگتا چکی ہیں وہ بھی اس سزا سے کسی طرح بھی کم نہ تھیں۔مگر اس سے یہ تو ہوا کہ مریم نواز جیسی بیٹی جو ناز و نیم میں پلی تھی اب خاک نشینی کے بعد صحیح معنوں میں پاکستان کے لوگوں کے صحیح مسائل سے آشنا ہوکر سلاخون کی بھٹی میں پگھل کُندن بن کر نکلے گی….بہادر پاب کی نڈر بیٹی دُخترِ پاکستان کو پاکستانی قوم سلام پیش کرتی ہے۔

Shabbir Ahmed

Shabbir Ahmed

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
03333001671
shabbirahmedkarachi@gmail.co