امریکی کھلاڑی کا ترانے کے احترام میں کھڑے ہونے سے انکار

Kaepernick

Kaepernick

امریکہ (جیوڈیسک) امریکی نیشنل فٹ بال لیگ کے ایک کھلاڑی نے قومی ترانے کے دوران کھڑے ہونے سے انکار کر کے ملک میں نسلی امتیاز اور سیاہ فام لوگوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

کولن كیپرنك سان فرانسسکو 49 ٹیم سے کھیلتے ہیں۔ جب قومی ترانا بج رہا تھا تو اس وقت وہ اپنی کرسی پر بیٹھے رہے اور کھڑے نہیں ہوئے۔

انھوں نے اپنی اس حرکت پر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا: ’میں اس پرچم یا ملک کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونے نہیں جارہا ہے جو سیاہ فام اور دوسرے رنگ و نسل کے لوگوں کو دباتا ہے۔‘بعض مداحوں نے اس وقت ان کی اس حرکت پر ان کی توہین بھی کی۔

قومی ترانے کے دوران پرچم کے اعزاز میں کھڑے نہیں ہونے کی وجہ سے اس کھلاڑی پر سوشل میڈیا میں کافی نکتہ چینی ہو رہی ہے۔

جبکہ کولن کے ساتھیوں نے کولن کے آواز اٹھانے کو صحیح قرار دیتے ہوئے ان کی حمایت کی ہے ادھر ٹیم نے کہا کہ ’جب ہم قومی ترانے کی تقریب کرتے ہیں اس وقت ہر اس فرد کا قومی ترانے یا پرچم کی تعظیم میں کھڑے ہونے یا نہ ہونے کا احترام کرتے ہیں۔‘

ایک ترجمان نے کہا کہ ہم قومی ترانے کے دوران تعظیما کھڑے ہونے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن یہ ضروری بھی نہیں ہے۔

کولن كیپرنك سوشل میڈیا پر سیاہ فاموں کے لیے چلنے والی تحریک ’بلیک لائیوز میٹر موومنٹ‘ کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے ہیں۔

انہوں نے میڈیا سے بات چيت میں کہا کہ ’میری اس مخالفت کو اگر دوسرے انداز سے دیکھیں تو یہ خود غرضی ہوگی لیکن ایسا کرنا میرے لیے فٹ بال سے بھی بڑا کام ہے۔‘

قومی ترانے کے اعزاز میں کھڑا نہ ہونے کی وجہ سے اس موضوع پرسوشل میڈیا میں بڑی بحث کو جنم دیا ہے اور اپنی مختف آرا پیش کر رہے ہیں۔

ڈان بونگینو نے اس کے رد عمل میں ٹوئٹر پر لکھا: ’یہ براہ راست ہمارے ملک اور ہمارے قومی پرچم کی توہین ہے۔‘ لیکن بہت سے لوگ کولن کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔

جیمیلی بوائے لکھتے ہیں: ’دو ماہ پہلے ہی ہم نے محمد علی کی اسی فکر کا احترام کیا تھا لیکن آج ہم کولن كیپرنك کی مخالفت کر رہے ہیں۔‘

سیم وائٹ نے ٹویٹ کیا: ’لوگ اس بات کے لیے پاگل ہو رہے ہیں کہ كیپرنك قومی ترانے کے دوران اس کی مخالفت میں بیٹھے رہے۔ لیکن کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ وہ ناانصافی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔‘

سپورٹس سینٹر کے ٹویٹس میں لکھا ہے کہ ’میں اس ملک کے پرچم کے اعزاز میں کھڑا نہیں ہو سکتا جہاں سیاہ فام لوگوں کو نسلی امیتاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘