تاریخ کا آئینہ

History

History

تحریر : شیخ توصیف حسین
گزشتہ روز میں اپنے دفتر میں بیٹھا سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچ رہا تھا کہ اس بار کیا لکھوں کہ میرے ملک کی پچانوے پرسنٹ عوام نفسا نفسی کے ساتھ ساتھ بے حسی کا شکار ہو کر انسانیت سے بیگانہ ہو کر رہ گئی ہے یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ کسی ایک ملک کے بادشاہ کی عوام نفسا نفسی کے ساتھ ساتھ بے حسی کا شکار ہو کر انسانیت سے بیگانہ ہو کر رہ گئی تھی جس پر بادشاہ کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ کہیں یہ میرا ملک عوام کی نفسا نفسی اور بے حسی کا شکار ہو کر میرے دشمن ملکوں کے ہاتھوں نہ چلا جائے جس پر بادشاہ نے محض اس لیئے اپنی عوام کو مختلف طریقوں سے اذیت دینا شروع کر دی تاکہ ان کی سوئی ہوئی غیرت جاگ جائے اور اس اذیت کے خلاف آ واز حق بلند کرنے کی جرات کر سکے چونکہ بادشاہ یہ بخوبی سمجھتا تھا کہ خداوندکریم نے کبھی اُس قوم کی حالت نہیں بدلی کہ جس کو نہ ہو از خود خیال اپنی حالت کے بدلنے کا قصہ مختصر بادشاہ کے ان تمام اذیت ناک طریقوں کے باوجود عوام جوں کی توں رہی تو بادشاہ نے عوام کو مذید اذیت دینے کیلئے شہر کے باہر جانے اور آنے والے راستے پر چوکی تعمیر کروا کر چند ایک محافظوں کو تعنیات کر دیا جو ہر آنے جانے والے افراد سے ٹیکس وصول کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی چھترول کرنے میں مصروف عمل رہتے۔

اس ہتک آمیز رویہ کے سلسلے کے چند ہی روز بعد چند ایک افراد بادشاہ کے دربار میں حاضر ہونے کے بعد بادشاہ کو استدعا کرتے ہوئے کہنے لگے کہ بادشاہ سلامت آپ نے جو ہر شہری کے آنے اور جانے والے راستے پر چوکی تعمیر کروائی ہے وہاں پر محافظوں کی تعداد کم ہے جبکہ عام شہری کی تعداد زیادہ ہے جس کے نتیجہ میں آپ کے محافظ شہریوں سے ٹیکس اور چھترول کرنے میں دیر کر دیتے ہیں لہذا آپ مہربانی فر ما کر مذکورہ چوکی پر محافظوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ کر دے تاکہ وہ بر وقت ہر شہری سے ٹیکس وصول کر نے کے ساتھ ہر شہری کی چھترول کر سکے بس یہی کیفیت ہمارے ملک کے پچانوے پرسنٹ عوام کی ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے ملک کے متعدد حاکمین اپنی عیارانہ چالوں سے عوام کو اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور کر رہے ہیں پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ 1947سے لیکر آج تک جتنے بھی حاکمین آئے اُن میں سے زیادہ تر تعداد ان حاکمین کی ہے جو اپنے فرائض و منصبی دہاڑی لگائو اور مال کمائو کی سکیم پر عمل پیرا ہو کر ادا کرتے رہے جس کے نتیجہ میں ہمارا ملک تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے پسماندگی کی راہ پر گامزن ہو کر بھکاری ملکوں کی صف میں آ کھڑا ہوا ہے۔

در حقیقت تو یہ ہے کہ یہ وہ حاکمین ہیں جو عوام کے سامنے اپنے آپ کو پارسا شو کر نے کیلئے جانے والی حکومت کے حاکمین کے خلاف پاکستانی دولت لوٹنے کے مختلف مقدمات درج کروا دیتے ہیں لیکن انھیں سزا دلوانے میں ہمیشہ قاصر رہتے ہیں یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس ملک میں جتنے بھی عدلیہ کے ارباب و بااختیار ہوتے ہیں وہ صرف اور صرف ان حاکمین کی اجازت سے ہوتے ہیں تو پھر بھلا ان حاکمین کو کس بات کا ڈر اور خوف ہاں البتہ اس ملک میں قانون لا گو ہے تو وہ ہے صرف اور صرف مظلوم افراد پر جو بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر پانچ سو روپے کی چوری کرتا ہے اپنے اہلخانہ کی بھوک مٹانے کیلئے۔

Law

Law

جبکہ دوسری جانب اربوں اور کھربوں روپے لوٹنے والے حاکمین کو عام معافی چونکہ ان کے سامنے قانون اندھا اور بہرہ ہو جاتا ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آج ملک بھر کی جیلوں میں زیادہ تر تعداد اُن افراد کی ہے جو اپنے اہلخانہ کا پیٹ بھرنے کیلئے پانچ سو روپے کی چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں جبکہ اربوں اور کھر بوں روپے لوٹنے والے حاکمین کا مذکورہ جیلوں میں نام و نشان تک نہیں ملتا افسوس صد افسوس کہ ہمارے ملک کے حاکمین سعودی عرب جیسے ملک جس کے امرا کو جنگ کا خطرہ تھا کی مدد کیلئے اُس کے دشمن کو ہراساں کرنے کیلئے اپنی فوجی طاقت کے تعاون کا بھرپور مظاہرہ کر رہے تھے جبکہ دوسری جانب آج ہندوستان جو منہ میں رام رام اور ہاتھ میں چھری لیکر مقبو ضہ کشمیر میں ہمارے نہتے مسلمان کشمیری بھائیوں پر ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر رہا ہے جبکہ ہماری کشمیری بہنوں کی عصمت پا مال کر کے ہمیں بے غیرت بنا رہا ہے۔

اس کے باوجود ہمارے عربی امرا اور ہمارے حاکمین خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں یہی کافی نہیں ہمارے حاکمین نے ملک بھر میں شکار پر پا بندی عائد کر رکھی ہے لیکن عربی امرا پر نہیں خواہ وہ اس ملک میں انسانی زندگی کا شکار کریں یا پھر کسی پرندے کا انھیں کھلی آ زادی ہے بلکہ اُن کے اس گھنائونے اقدام کی دیکھ بھال کیلئے محافظوں کا ایک دستہ تعنیات کر دیا جاتا ہے آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ عربی امرا اپنی دولت کا زیادہ تر حصہ غیر مسلم بنکوں میں رکھتے ہیں اُن کے متعلق یہ شنید ہے کہ وہ غیر مسلم بنکوں سے اپنی دولت کا سود بھی وصول نہیں کرتے کاش یہ عربی امرا وہی دولت پاکستانی بنکوں میں رکھتے تو آج ہمارا ملک خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو کر رہ جاتا لیکن افسوس کہ عربی امرا ایسا کرنے میں ہمیشہ قاصر رہے ہیں اور وہ ایسا کر بھی نہیں سکتے چونکہ یہ عربی امرا وہ ہیں جن کے زیادہ تر بزرگوںنے خداوندکریم کے پیارے محبوب حضور پاک اور آپ کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ساتھ آپ کے عزیز و اقارب کو اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا تھا۔

اگر آج آپ حقیقت کے آ ئینہ میں دیکھے تو مذہب اسلام کو کئی حصوں میں تقسیم کر نے والے انہی عربی امرا کے بزرگ ہیں آج بھی یہ عربی امرا قرآن پاک کی عظمت کو پامال کرتے ہوئے قرآن پاک کو عام کتاب سمجھتے ہوئے سروں کے نیچے رکھ کر سو جاتے ہیں اگر آپ تاریخ کے آ ئینے میں دیکھے تو خانہ کعبہ کے غلاف کو آگ لگانے والے انہی عربی امرا کے بزرگ تھے پھر بھی ہمارے ملک کے حاکمین عربی امرا کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں عربی امرا کے اس گھنائونے اقدام کے باوجود ہمارے ملک کی پچانوے پر سنٹ عوام خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے تعجب ہے۔
بک گیا دوپہر تک بازار کا ہر ایک جھوٹ
اور میں شام تک ایک سچ کو لیکر یوں ہی کھڑا رہا

Sheikh Touseef Hussain

Sheikh Touseef Hussain

تحریر : شیخ توصیف حسین