ہو سایہ تیرے سر پہ بہاروں کی رِدا کا

Spring

Spring

ہو سایہ تیرے سر پہ بہاروں کی رِدا کا
ہونٹ کی حلاوت نہ کسی دستِ حنا کا
اب کوئی بھروسہ بھی نہیں اہلِ وفا کا
اے میری محبت کا بھرم توڑنے والے
اندازہ نہیں تجھ کو میرے کرب و بلا کا
وہ لوگ تہہِ آب چلے جائیں تو کیا ہے
ساحل سے جواب آیا نہیں جِن کی صدا کا
جو آج بھی جیون کے کٹہرے میں کھڑے ہیں
کیا خوف انہیں تیری عدالت سے سزا کا
کھِلتے ہی رہیں پھول تیرے قلب و نظر میں
ہو سایہ تیرے سر پہ بہاروں کی رِدا کا
جِس شہر میں بِک جاتے ہوں افلاس و امارت
اُس شہر میں کیا فرق رہا شاہ و گدا کا
اِس دیس کے خوش رنگ گلی کوچوں کو ساحل
پیوند نظر آیا نہ مفلس کی قبا کا

ساحل منیر